شہر کی تزئین میں مصروف مزدوروں کے بچوں کی حالت زار

شہر کی تزئین میں مصروف مزدوروں کے بچوں کی حالت زار

بھارت کے دارالحکومت میں یہ عام سا منظر ہے کہ بھاری مشینوں سے تعمیراتی کام جاری ہے، ٹریفک کا ہجوم ہے اور بیچوں بیچ بچے کھیل رہے ہیں۔ نئی دہلی میں آج کل اکتوبر میں ہونے والے 11 روزہ کامن ویلتھ گیمز کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔56 ارب ڈالر کے خرچ سے شہر کی تزئین و آرائش اور بڑے پیمانے پر تعمیر کا کام جاری ہے۔ یہ سارا کام باہر سے آئے ہوئے چار لاکھ سے زیادہ مزدور کر رہے ہیں ۔ ان میں سے بہت سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آئے ہیں جن کے لیے نہ رہنے کا کوئی ٹھکانہ ہے اور نہ صفائی ستھرائی کا انتظام۔

کامن ویلتھ گیمز دنیا کے بہت سے ملکوں کے کھلاڑیوں کا تیسرا سب سے بڑا اجتماع ہوتے ہیں۔ ان کھیلوں کی تیاری زور شور سے جاری ہے ۔ باہر سے آنے والے مزدوروں کے ساتھ تقریباً دس ہزار بچے بھی نئی دہلی پہنچ گئے ہیں۔ یہ سب انتہائی خراب حالات میں رہنے پر مجبور ہیں۔ انہیں نہ بجلی میسر ہے، نہ ٹوائلٹ کی سہولتیں ۔

سبھاش بھٹناگر وکیل ہیں اور بچوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’جن گاؤں دیہات سے یہ بچے آئے ہیں وہاں انہیں فاقے ہی کرنے پڑتے ہیں۔وہاں کوئی چیز نہیں ہے جو انہیں روک سکے۔ یہاں دہلی میں تو وہ پھر چار پیسے کما لیں گے۔ وہاں ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔‘‘

ان میں سے بہت سے بچے یہاں نئی دہلی میں اس لیے موجود ہیں کیوں کہ ان کے باپ اپنی بیویوں کو گاؤں میں بے یارومددگار نہیں چھوڑ سکتے تھے۔بیویاں آتی ہیں تو بچے بھی ان کے ساتھ آتے ہیں کیوں کہ گاؤں میں ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ مزدوروں میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ کِرن بیدی کا شوہر گاؤں میں بیمار ہے۔ وہ 600 کلو میٹر کا سفر طے کر کے اپنے چاربچوں کے ساتھ دہلی آگئی ہیں۔ وہ روزانہ دو ڈالر کماتی ہیں۔ یوں بچوں کا پیٹ بھرتا ہے۔

یہ گھرانہ ایک پُل کے نیچے سر چھپائے ہوئے ہے۔ ماں مزدوری کرتی ہے اور بچے ادھر ادھر مارے مارے پھرتے ہیں۔ کرن بیدی کہتی ہیں’’وہ کہہ رہی ہیں کہ میں نے بچوں کو سرکاری اسکول میں داخل کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے کہہ دیا کہ تم تو مزدور ہو۔اور اگر وہ بچوں کو داخل کر بھی لیتے تو فیس کہاں سے آتی۔‘‘

کچھ بچوں کو بعض فلاحی تنظیموں کے پروگراموں سے فائدہ ہوتا ہے۔ Mobile Creches ایسی ہی تنظیم ہے جو 20 علاقوں کے نزدیک جہاں تعمیراتی کام ہو رہا ہے ہر مقام پر دن کے وقت 80 بچوں کی دیکھ بھال اور کھانے کا انتظام کرتی ہے۔ تعمیراتی کام کی جگہ بدلتی ہے تو بچوں کو بھی دوسرے مقام پر منتقل ہونا پڑتا ہے۔بار بار مختلف جگہوں پر منتقل ہونے سے بچوں کی نشو ونما پر برا اثر پڑتا ہے اور جو تھوڑی بہت تعلیم اور صحت کی سہولتیں مل رہی ہوتی ہیں، ان میں خلل پڑ جاتا ہے ۔

انجلی الیگزینڈر Mobile Creches کی چیئر پرسن ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بچوں کو بہت کم عمری میں ہی زندگی کی یہ سختیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ چھوٹے بچوں کو غذائیت نہیں ملے گی تو جوان ہو کر بھی وہ تندرست نہیں رہیں گے ۔ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں ۔ نہ ان کی دوستیاں پکی ہو تی ہیں اور نہ کہیں اور سے کوئی مدد ملتی ہے۔

1996کے Building and Other Construction Workers Actکے مطابق ضروری ہے کہ تعمیراتی کمپنیاں تمام تعمیراتی پراجیکٹس کی کُل لاگت کا ایک فیصد حصہ کارکنوں کے بہبود فنڈ کے لیے الگ رکھ دیں۔ اس رقم کا ایک حصہ بچوں کی نرسریوں اور ان کے اسکولوں کے اخراجات کی ادائیگی پر خرچ ہونا چاہیئے ۔کنٹریکٹرز کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے مزدوروں کو رجسٹر کریں تا کہ انہیں یہ فوائد مل سکیں۔ لیکن اس قانون پر عمل در آمد نہیں کیا جاتا۔

قانون کی پابندی کی صورت حال خراب ہونے کے باوجود دہلی میں ویلفیئر فنڈ میں تقریباً سات کروڑ ڈالر کی رقم جمع ہو گئی ہے۔ لیکن سماجی کارکنوں کے حساب کے مطابق اس میں سے صرف 30,000 ڈالر کی رقم کے فوائد مزدورں تک پہنچےہیں۔

Citizens for Workrs, Women and Children نامی تنظیم کے مطابق قانون پر عمل درآمد کے اخراجات بہت کم ہوں گے۔ یہ تنظیم تعمیراتی مزدوروں کے گھرانوں کے لیے رہنے سہنے کے عمدہ حالات اور دن کے اوقات میں ان کے بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات کا تخمینہ لگاتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ اخراجات منصوبوں کی لاگت کے ایک فیصد کے ایک تہائی کے مساوی ہوں گے۔

Mobile Creches کی الیگزینڈر کہتی ہیں کہ دہلی میں رہنے والے متوسط اور اعلیٰ طبقے کے لوگ ، مزدوروں اور ان کے بچوں کی حالت سے بے نیاز رہتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’لوگ بالکل بے تعلق ہو جاتے ہیں۔ یعنی ایک طرح سے ان میں احساس ختم ہو جاتا ہے کیوں کہ وہ روزانہ یہی منظر دیکھتے ہیں،لیکن انہیں کسی چیز سے مطلب نہیں ہوتا۔‘‘

مقامی میڈیا میں اس قسم کی شکایتوں پر تو توجہ دی گئی ہے کہ کامن ویلتھ گیمز کے سلسلے میں تعمیری کام میں تاخیر ہو گئی ہے لیکن مزدور اور ان کے گھر انے کے لوگ کتنے خراب حالات میں رہ رہیں ہیں، اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔