کیا افغانستان میں جنگ ختم ہونے پر عسکریت پسند بھارتی کشمیر کا رخ کر سکتے ہیں؟

مبصرین کے مطابق بھارت کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے کردار کو کم کیا جائے۔ اس کے ساتھ بھارت کی یہ بھی کوشش ہو گی کہ افغانستان میں سفارتی مشن فعال رہیں اور طالبان کشمیر کے مسئلے سے خود کو الگ کر لیں۔ (فائل فوٹو)

افغانستان میں افغان طالبان اپنی سیاسی حیثیت مضبوط کرنے کے لیے جنگی حکمتِ عملی کے ساتھ ساتھ سفارتی حکمتِ عملی تشکیل دے رہے ہیں۔

ایسے میں پاکستان اور ایران کے ذرائع ابلاغ میں یہ رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ بھارت کے وفود نے بھی طالبان کی سیاسی قیادت سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ملاقاتیں کی ہیں۔

افغان طالبان نے ان خبروں سے لا علمی کا اظہارکیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق رواں ماہ بھارت کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے دوحہ میں طالبان کی سیاسی قیادت سے ملاقات کی تھی۔

سینئر صحافی اور افغان امور کے ماہر سمیع یوسف زئی کے مطابق کوئٹہ شوریٰ کے بعض ارکان رپورٹس کی تصدیق کر رہے ہیں کہ بھارت کے وزیرِ خارجہ سے اس ملاقات میں ملا برادر، خیراللہ خیر خواہ اور شیخ دلاور شریک تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ملاقات میں طالبان نے بھارت کے وفد کو یقین دہانی کرائی ہے کہ مستقبل میں طالبان کے تعلقات اسلام آباد کی خواہشات کے تابع نہیں ہوں گے۔

طالبان کے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں قائم سیاسی دفتر کے ترجمان محمد سہیل شاہین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان ملاقاتوں سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ طالبان کے دوحہ میں دفتر کے ایک اور سینئر رہنما نے بھی بھارت کے وفد سے ملاقات سے لاعلمی ظاہر کی ہے۔

افغان طالبان اور بھارت کی حکومت دونوں ہی نے ملاقاتوں کی تصدیق نہیں کی۔ البتہ مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت گزشتہ دو دہائیوں سے افغانستان میں بہت فعال رہا ہے۔ نئی دہلی چاہتا ہے کہ اگر مستقبل میں طالبان کابل میں اقتدار میں آئیں تو بھارت کے ساتھ اُن کے تعلقات بہتر ہوں۔

سینئر صحافی اور افغان امور کے ماہر سمیع یوسف زئی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت اور افغانستان کے تعلقات کی تاریخ بہت طویل ہے۔ طالبان کے دورِ حکومت میں بھارت کا سفارت خانہ کابل میں مکمل طور پر بند تھا۔ نئی دہلی کے لیے وہ وقت مشکل ترین دور تھا۔

ان کے مطابق بھارت کے لیے طالبان کی حقیقت سے انکار اب ممکن نہیں ہے اور بھارت جاننا چاہتا ہے کہ طالبان کی قیادت نئی دہلی کو کس نظر سے دیکھتی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

غیر ملکی افواج کا انخلا، افغانستان میں خانہ جنگی کا خدشہ

سمیع یوسف زئی کا مزید کہنا تھا کہ نئی دہلی کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ دو دہائیوں تک براہِ راست جنگ کرتا رہا ہے۔ اب اگر وہ طالبان سے مذاکرات کر سکتا ہے۔ بھارت تو کبھی طالبان کے خلاف کسی ایسی محاذ آرائی میں شریک نہیں رہا، وہ ان سے بات چیت کیوں نہیں کر سکتا۔

ان کے بقول طالبان کو بھی اس بات کا اندازہ ہے کہ اگر وہ کبھی دوبارہ کابل پر حکومت کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ تو بھارت یا دوسرے ممالک ان کے مخالف گروہوں جیسے شمالی اتحاد کی فنڈنگ اور مدد سے باز رہیں۔

قبل ازیں قطر کے خصوصی ایلچی مطلق بن ماجد القحطانی نے ویب کانفرنس​ کے دوران کہا تھا کہ بھارت کے وفد نے خاموشی کے ساتھ قطر کا دورہ کیا ہے جس کا مقصد دوحہ میں موجود طالبان کی سیاسی قیادت سے ملاقات کرنا تھا۔

بھارت کے وزیرِ خارجہ کا دو بار دوحہ کا دورہ کرنے کی خبریں

پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ بھارت کے وزیرِ خارجہ دو مرتبہ دوحہ گئے۔ البتہ ضروری نہیں ہے کہ ان کی طالبان قیادت سے ملاقات نہیں ہوئی ہو۔

ایک طرف شاہ محمود قریشی نے ملاقات کی تصدیق نہیں کی۔ تو دوسری طرف پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے ایک حالیہ انٹرویو میں افغان طالبان کے بھارت کے وفد سے ملاقات پر تنقید کی ہے۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مقیم دفاع اور سیکیورٹی امور کے ماہر مطیع اللہ خروٹی کا کہنا ہے کہ طالبان جنگی حکمتِ عملی کے ساتھ ساتھ سفارتی سطح پر بھی اپنے دائرے کو وسعت دینا چاہتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مطیع اللہ خروٹی نے کہا کہ بھارت کی یہ خواہش ہو گی کہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ روابط قائم کر کے پاکستان کے کردار کو کم کیا جائے۔

اسٹینفرڈ یونیورسٹی سے وابستہ جنوبی ایشیائی امور کے ماہر ڈاکٹر اسفندیار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح بھارت بھی افغانستان کی موجودہ صورتِ حال کے حوالے سے پریشان ہے۔ کیوں کہ نئی دہلی کو اندیشہ ہے کہ افغانستان میں جنگ ختم ہونے کی صورت میں عسکری تنظیمیں جیسے حرکت الانصار اور لشکرِ طیبہ وغیرہ ایک مرتبہ پھر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کا رُخ کر سکتی ہیں۔ روس کے انخلا کے بعد نوے کی دہائی میں بھی عسکری تنظیموں نے ایسا ہی کیا تھا۔

ڈاکٹر اسفندیار میر کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے کردار کو کم کیا جائے۔ ان کے بقول اس کے ساتھ بھارت کی یہ بھی کوشش ہو گی کہ افغانستان میں سفارتی مشن فعال رہیں اور طالبان کشمیر کے مسئلے سے خود کو الگ کر لیں۔ اور بھارت کو بھی افغانستان میں قیامِ امن کے عمل میں بطور فریق تسلیم کیا جائے۔

ڈاکٹر اسفندیار نے کہا کہ 2019 میں جب امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت کا باقاعدہ عمل شروع ہوا تو بھارت میں بھی ایک بحث کا آغاز ہوا کہ کیا بھارت کو بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل شروع کرنا چاہیے یا نہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی حکومت کے ساتھ ساتھ افغانستان کے مختلف سیاسی دھڑوں نے بھی بھارت کو طالبان کیے ساتھ بات چیت کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔

بھارت کے افغانستان میں سابق سفارت کار اور 2001 میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھارت کے سفارتی مشن کے رکن گوتم مکھو پادھیائے نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حالیہ ملاقاتوں سے فریقین کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ کیوں کہ افغانستان میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے تناظر میں بھارت کو اپنے شہریوں کی سیکیورٹی کی بھی تشویش ہے۔

مکھو پادھیائے کا مزید کہنا تھا کہ بھارت ہمیشہ افغانستان میں افغان عوام کے امنگوں کی ترجمانی کرنے والی حکومت کی حمایت کرتا ہے۔ دوسرا بھارت کی یہ بھی خواہش ہو گی کہ وہ طالبان کے عزائم جان سکیں کہ وہ مستقبل میں سیاسی عمل کے ذریعے کابل کا کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں یا پھر طاقت کے بل بوتے پر ایسا کریں گے۔

طالبان نے حال ہی میں افغانستان میں کئی اضلاع پر قبضہ کیا ہے۔ قبل ازیں جنوبی اور مشرقی علاقوں کو طالبان کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ البتہ اب طالبان نے افغانستان کے شمالی علاقوں میں پیش قدمی کی ہے۔

گزشتہ ہفتے طالبان نے تاجکستان کے ساتھ سرحدی علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے کے ساتھ ساتھ ایک اہم ترین ضلعے دوشی پر بھی قبضہ کیا ہے۔ جو کہ کابل کو شمالی افغانستان سے ملاتا ہے۔

طالبان کا دعویٰ ہے کہ یکم مئی کے بعد سے 100 سے زائد اضلاع کا کنٹرول طالبان سنبھال چکے ہیں۔ زیادہ تر اضلاع بغیر کسی جنگ کے افغان فورسز سے حاصل کیے گئے ہیں۔