رسائی کے لنکس

'صورتحال کشیدہ ہونے پر پاکستان کو اپنی فوج افغان بارڈر سے بھارت کے ساتھ سرحد پر منتقل کرنی پڑے گی'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد مجید نے کہا ہے کہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر کشیدگی میں اضافہ ہونے کی صورت میں پاکستان افغانستان سے متصل مغربی سرحد پر تعینات فوجی دستوں کو بھارت کے ساتھ مشرقی سرحد پر تعینات کر سکتا ہے۔

امریکہ کے اخبار 'نیو یارک ٹائمز' کو ایک انٹرویو میں پاکستان کے سفیر اسد مجید نے کہا ہے کہ کشمیر اور افغانستان دو الگ الگ معاملات ہیں۔ ان کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ امریکہ کے طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات کامیاب ہوں گے۔

پاکستانی سفیر کے بیان کے بعد اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ بھارت کے کشمیر کے حوالے سے حالیہ اقدامات سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی توجہ مغربی سرحد پر ایک ایسے وقت میں کم ہو سکتی ہے جب افغانستان میں قیام امن کی کوشش ایک اہم مرحلے پر پہنچ چکی ہے۔

امن مذاکرات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہم وہ کچھ کر رہے ہیں جو ہم کر سکتے ہیں، ہم کوشش جاری رکھیں گے۔

سفیر کا کہنا تھا کہ مشرقی سرحد پر کشمیر کے متنازع علاقے میں بھارت کی طرف سے کی جانے والی کارروائیاں ایک ایسے وقت میں ہوئی ہیں جب ہم اپنی مغربی سرحد پر بہت مصروف ہیں۔ اگر مشرقی سرحد پر صورت حال کشیدہ ہوتی ہے تو پاکستان کو اپنی فوج وہاں منتقل کرنی پڑے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت اسلام آباد میں سوچ بچار کا محور مشرقی سرحد کی صورت حال ہے۔

خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں بھارت کی حکومت نے جموں و کشمیر کے متنازع علاقے کی نیم خود مختار آئینی حیثیت ختم کر دی تھی جس کے بعد سے نئی دہلی اور اسلام آباد میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔

پاکستان نے بھارت کے حالیہ اقدامات کو دو طرفہ معاہدوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔

پاکستان کے سفیر اسد مجید نے کہا کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔

انہوں نے خدشے کا اظہار کیا کہ بدقسمتی سے یہ بحران مزید گھمبیر ہو سکتا ہے۔ تاہم، انہوں نے اس خراب صورت حال کی تفصیل بتانے سے گریز کیا۔

واضح رہے کہ افغانستان میں قیام امن کی کوشش ایک اہم مرحلے میں داخل ہو گئی ہے اور پاکستان کا اس میں اہم کردار رہا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر پاکستان اور بھارت میں کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے تو پاکستان کی توجہ تقسیم ہو گی۔

سلامتی امور کے تجزیہ کار طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ پاکستان کی کوشش ہو گی کہ مغربی سرحد سے اپنی فورسز کو نہ ہٹایا جائے۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے جو کردار پاکستان نے ادا کیا ہے وہ اُس وقت تک جاری رہے جب تک وہاں مکمل امن قائم نہیں ہو جاتا ہے۔

طلعت مسعود مزید کہتے ہیں کہ اگر بھارت کی ساتھ تناؤ میں اضافہ ہوتا ہے اور لائن آف کنٹرول پر کشیدگی بڑھتی ہے تو پھر ممکن ہے کہ پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی آئے یا افغانستان کے سرحد سے متصل علاقے میں تعینات فورسز کی تعداد میں کمی ہو سکتی ہے۔

افغان سرحد پر فورسز کی کمی کے حوالے سے وہ مزید کہتے ہیں کہ اس کے منفی اثرات افغانستان اور پاکستان دونوں پر ہو سکتے ہیں۔ اس صورت حال کی وجہ سے پاکستان کی افغاستان پر توجہ کم ہو گی جبکہ اسلام آباد کی افغانستان سے متعلق جاری مثبت پالیسی کی راہ میں کچھ مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کا آٹھواں دور قطر کے دار الحکومت دوحہ میں مکمل ہوا ہے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ فریقین کے درمیان امن سمجھوتے پر جلد دستخط ہو سکتے ہیں، جس کی وجہ سے افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا اور تشدد میں کمی ہو سکتی ہے۔ تاہم، ابھی تک امریکہ اور طالبان کی طرف سے اس بات کا باضابطہ اعلان سامنے نہیں آیا کہ دونوں کے درمیان حتمی معاہدہ کب طے پائے گا۔

XS
SM
MD
LG