’’آوارہ بلیوں کی حالت زار دیکھنا تکلیف دہ ہے‘‘

ڈیٹا اپنے گھر میں بلیوں سے کھیل رہی ہیں

انڈونیشیا میں ایک 45 سالہ گھریلو خاتون ڈیٹا اگسٹا 250 سے زائد بلیوں کے ساتھ رہتی ہیں جنہیں انہوں نے سڑکوں گلیوں سے اٹھا کر گود لیا ہے۔ ڈیٹا نے اپنی رہائش گاہ پر ان کے لئے ایک شیلٹر یعنی پناہ گاہ قائم کر دی ہے اور وہ پوری توجہ سے ان کی دیکھ بھال میں مصروف رہتی ہیں۔

ڈیٹا کو امید ہے کہ بھی نہ کبھی لوگ جکارتا کے مضافات میں واقع ان کے گھر میں موجود ان 250 سے زائد بلیوں میں سے کچھ کو گود لے لیں گے اور یوں ان بلیوں کی قسمت بدل جائے گی۔

ڈیٹا کا کہنا ہے کہ سڑکیوں گلیوں میں ان بلیوں کو بے سہارا دیکھنا بہت تکلیف دہ ہے۔ نیوز ایجنسی رائٹرز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ بچپن ہی سے ایسی بے سہارا بلیوں کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔

بلیوں کو خوراک فراہم کی جا رہی ہے

وہ اپنے ماہی گیر شوہر محمد لطفی کے ہمراہ اب سے کوئی چار برس قبل بیکاسی شہر سے جب مغربی جاوا میں ایک نسبتاٍ بڑے گھر میں منتقل ہوئیں تو انہوں نے محسوس کیا کہ اب وہ بلیوں کے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ بنا سکتی ہیں اور ان کی دیکھ بھال کر سکتی ہیں۔

اب یہ جوڑا ہر روز کم سے کم دس لاکھ انڈونیشئن روپے یعنی تقریباً 72 ڈالر ان بلیوں کی خوراک، دواؤں اور صفائی پر خرچ کرتا ہے۔ اس کے لئے انہوں نے پانچ لوگوں کو ملازم رکھا ہے جو گھر کی روزانہ کم سے کم دو بار مکمل صفائی کرتے ہیں تاکہ بلیوں کے لئے ماحول صاف ستھرا اور حفضان صحت کے مطابق رہے۔

ڈیٹا کہتی ہیں کہ وہ ایسی بلیوں کو پناہ نہیں دیتیں جو مکمل طور پر صحت مند ہیں بلکہ صرف ایسی بلیوں کو شیلٹر میں لاتی ہیں جنہیں مدد اور سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ معذور بلیاں مستقل ہی ان کے پاس رہیں گی۔

ان کے شیلٹر میں موجود تمام بلیوں کی نس بندی کی جاتی ہے تاکہ ان کی آبادی کو کنٹرول میں رکھا جا سکے۔ ان کی جسمانی صحت کا بھی بھرپور خیال رکھا جاتا ہے تاکہ وہ علاقے کے ماحول کے لئے صحت کے حوالے سے کسی خطرے کا باعث نہ بنیں۔