’ایرانی سرحدی محافظوں کو پاکستان نہیں لایا گیا‘

پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان کے بقول،’ہمارے سکیورٹی اداروں کے حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اُنھیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ اِن محافظوں کو پاکستان لایا گیا تھا؛ اور ساتھ ہی اس بات کا بھی کوئی اشارہ نہیں ملا کہ اُنھیں پاکستان ہی میں رہا کیا گیا‘
جمعرات کو پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان، تسنیم اسلم نے کہا ہے کہ شدت پسند گروہ کی طرف سے اغوا کیے جانے والے ایرانی سرحدی محافظوں کو پاکستان ہرگز نہیں لایا گیا۔

بقول اُن کے، ’ہمارے سکیورٹی اداروں کے حکام نے اِس بات کی تصدیق کی ہے کہ اُنھیں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ اِن محافظوں کو پاکستان لایا گیا تھا؛ اور ساتھ ہی اس بات کا بھی کوئی عندیہ نہیں کہ اُنھیں پاکستان ہی میں رہا کیا گیا‘۔

ایرانی اہل کار اِس دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔

اسماعیل کوثری ایران کی قومی سلامتی کی مجلس اور خارجہ امور کمیٹی کے نائب سربراہ ہیں۔ گذشتہ ہفتے، ایران کے خبر رساں ادارے، فارس نے کوثری کے حوالے سے خبر دیتے ہوئے کہا تھا کہ ، ’پانچ میں سے چار مغوی ایرانی سرحدی محافظوں کو پاکستان میں ایرانی سفارتی اہل کاروں کے سپرد کیا گیا‘۔

فارس نے کوئی تفصیل نہیں بتائی آیا یہ رہائی کب عمل میں آئی یا یہ کس طرح سے واقع ہوئی۔

فروری کے اوائل میں ہونے والے اغوا کے اس واقعے کے بعد، علاقائی اور فرقہ وارانہ تناؤ میں اضافہ آیا۔ ایران نے کہا تھا کہ اِن محافظوں کو پاکستان لے جایا گیا ہے اور اُس نے اُن کی بازیابی ہے لیے فوج کشی کی دھمکی دی تھی۔


’جیش العدل‘ کا کہنا تھا کہ اغوا میں وہی ملوث ہے۔

یہ سنی مسلک سے تعلق رکھنے والا ایک گروہ ہے، جو ایران کے صوبہٴ سیستان بلوچستان میں سرگرم عمل ہے، جو اکثریتی شیعہ آبادی پر مشتمل ہے اور پاکستان کی سرحد کے ساتھ واقع ہے۔


اس تحریک کا کہنا تھا کہ اُسی نے گروپ کےپانچویں رکن کو مارچ میں ہلاک کر دیا تھا۔