کرونا وائرس اور سائبر حملے ساتھ ساتھ جاری

فائل فوٹو

کرونا وائرس کی عالم گیر وبا کے باوجود سائیبر حملوں کے خطرات پوری دنیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ بہت سے ممالک ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ سائیبر جنگ میں ملوث ہیں۔ ہر ملک یہی شکایت کرتا ہے کہ اس کے سائیبر حقوق پر ڈاکے پڑ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ کرونا وائرس سے لڑنے سے متعلق مختلف ملکوں کی تحقیقات بھی چوری ہو رہی ہیں۔

تل ابیب سے وائس آف امریکہ کی نامہ نگار لنڈا گریڈ سٹائین نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیل کے قومی ڈائریکٹریٹ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی سینکڑوں ویب سائٹس ہیک کر لی گئی ہیں۔

اسرائیل کو شک ہے کہ ممکنہ طور پر یہ کارروائی ایران کی ہو سکتی ہے۔ بسا اوقات اسرائیل کی ویب سائٹس کے مواد کو بھی تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ دونوں ملک ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے جوابی کارروائی کے طور پر ایسے اقدام کیے۔

اسرائیل ایک عرصے سے سائیبر سیکیورٹی کے سلسلے میں سرگرم ہے۔ اس کی فوج میں سینکڑوں سائیبر ماہرین کام کرتے ہیں اور فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد نجی کمپنیوں میں بھی یہی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔

تل ابیب یونیورسٹی کے سائیبر ریسرچ سینٹر کے محقق جل بارام بتاتے ہیں کہ اسرائیل اپنے منفرد انداز سے اس مسئلے سے نمٹ رہا ہے۔ یہ تعلیمی، سرکاری اور نجی اداروں کے اشتراک سے درپیش عالمی خطروں کا مقابلہ کر رہا ہے۔ کیوں کہ اسرائیل سمجھتا ہے کہ نہ صرف اس سے فوج کو خطرہ ہے بلکہ ملک کی سلامتی بھی خطرے میں ہے۔

اسرائیل کی کمپنی چیک پوائنٹ کا شمار دنیا کی بہترین سائیبر سیکیورٹی فرموں میں ہوتا ہے۔ اسے جن تین افراد نے قائم کیا ہے, وہ اکٹھے فوج میں خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔

اس کمپنی نے حال ہی میں چین کی جانب سے سائیبر چوری کی کارروائی کو طشت از بام کیا ہے۔ چین کی نائی کان نامی اس کارروائی میں جنوب مشرقی ایشیا کے سرکاری اداروں کے کمپیوٹر ڈیٹا کو چوری کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔

چیک پوائنٹ کے ایک اعلیٰ عہدے دار لوٹیم فنکل سٹائین کا کہنا ہے کہ ہم نے کئی سال پہلے اس حملے کا سراغ لگا لیا تھا۔ پوری تصویر واضح ہونے میں کچھ وقت لگا۔ مختلف انداز کے حملے جدا جدا ہوتے تھے۔ پھر ہم نے پتہ چلا لیا کہ ان سب کے سرے ایک بڑی مہم سے جا ملتے ہیں جو کئی برسوں سے جاری ہے۔

چین کی سرکاری سرپرستی میں چلنے والے ان اداروں کی امریکہ تک رسائی ہے۔ حال ہی میں انہوں نے ویکسین سے متعلق امریکہ میں ہونے والی ریسرچ کو ہیک کرنے کی کوشش کی۔ چین کی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

جل بارام کا خیال ہے کہ چین ان ملکوں میں سے ایک ہے جو سائیبر حملوں کے ذریعے دوسرے ملکوں کے راز چراتے ہیں۔ چین نے خاص طور سے وہ صنعتی راز حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جن کے حقوق اس کے پاس نہیں تھے۔

عالمی ادارہ صحت نے بھی کہا ہے کہ متعدد بار اس کے کمپیوٹر کے ڈیٹا کو چرانے کی کوشش کی جا چکی ہے۔

ادارے نے انتباہ کیا ہے کہ مختلف ممالک الگ الگ کرونا وائرس کے انسداد کے لیے ویکسین پر تحقیق کر رہے ہیں اور اس لیے اس بات کا امکان بڑھ گیا کہ سائیبر حملوں میں اضافہ ہو گا اور یہ کوشش کی جائے گی کہ ایک دوسرے کی تحقیقاتی کوششوں سے متعلق مواد حاصل کر لیا جائے۔