اسرائیل، فلسطین: پرامن تصیفے کی کوششیں

اسرائیل، فلسطین: پرامن تصیفے کی کوششیں

اسرائیل فلسطین تنازعے کی تاریخ نصف صدی سے زائد پر محیط ہے اور عام طور پر دنیا کے سامنے اس خطے میں ہونے والی پرتشدد کارروائیوں کی خبریں ہی آتی ہیں ۔لیکن اب ایسی تنظیمیں بھی وجود میں آرہی ہیں جو اس مسئلے کو بارود کی بجائے مذاکرات کی میز پر حل کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ ایک ایسی ہی تنظیم واشنگٹن میں قائم جسٹ ویژن۔

فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان پرتشدد کارروائیوں کو دنیا بھر کے میڈیا پر جگہ ملتی ہے۔ مگر اسی خطے میں دونوں ممالک کے لوگوں کی جانب سے امن عمل کی کوششوںکو ذرائع ابلاغ میں کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی ۔ امریکی یہودی رونٹ ایونی کے نزدیک 2003 ءمیں ان کی غیر سرکاری تنظیم جسٹ ویژن کے قیام کا سبب بھی یہی وجہ تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ہم میڈیا کو اپنی وہ فلمیں اور کہانیاں دکھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں جس کے بارے میں آپ کو کم ہی سننے کو ملتا ہے۔ یہ ان بہادر لوگوں کی کہانی ہے جو ہتھیاروں کے بغیر امن کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔

جسٹ کی جانب سے بنائی گئی ڈاکومینٹری انکاؤنٹر پوائنٹ میں ایک سابقہ اسرائیلی نوآبادکار ، غمگین فلسطینی اور دونوں اطراف کے دیگر لوگوں کو دکھایا گیا ہے۔ وہ اپنے نقصانات اور سب سے بڑھ کر امن کی بڑھتی کوششوں کا ذکر کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ہم ان کہانیوں پر توجہ دیتے ہیں۔ بطور ِ خاص کامیاب کہانیوں پر ، جہاں لوگ اپنے حالات بدلنے میں کامیاب رہے۔

جسٹ ویژن کی نئی ڈاکومینٹری بدرس کو دنیا بھر میں کئی ایوارڈز اور ناظرین سے پذیرائی ملی ہے۔ ایونی کہتے ہیں کہ اس فلم میں فلسطینی عوام اور آپس میں مل کر کام کرنے کی طاقت کو دکھایا گیا ہے۔ تشدد کے بغیر اور خواتین کی مدد سے نتائج حاصل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

یہ فلم ایک فلسطینی سماجی لیڈر ایاد مورور کی کہانی بیان کرتی ہے۔ جس نےاسرائیل کی جانب سے دیوار کھڑی کرنے پر اپنے گاؤںمیں اس قبضے کے خلاف اسرائیلی حامیوں کے ساتھ ملکر جدوجہد کی تھی، مگر اس کے باجوو وہ اپنا گاؤں بدرس بچانے میں ناکام رہا تھا۔ انہوں نے اس فلم کے حوالے سے اپنے حالیہ دورہ ِ واشنگٹن میں ان خیالات کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نےبدرس میں پرامن جدوجہد کا انتخاب کیا۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ آسان نہیں، مگر یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اسرائیلی قبضے کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں۔

اس دستاویز ی فلم کو نہ صرف فلسطینیوں کی جانب سے سراہا گیا بلکہ یہ خود اسرائیل کے لیے بھی حیران کن تھا جو اپنے قبضے میں موجود علاقوں میں اس قسم کی پرامن جدوجہد سے بے خبر تھا۔

مگر انکا خیال ہے کہ اس مقدس زمین پراسی وقت امن کی کوششیں اسی وقت کامیاب ہو سکیں گی جب وہاں رہنے والے لوگ اس پر یقین ہوگا۔