کنزا تشدد کیس: میجر عمارہ ریاض تاحال گرفتار نہیں ہو سکیں

راولپنڈی میں گھریلو ملازمہ ہر تشدد کی ملزم خاتون فوجی ڈاکٹر، میجر عمارہ ریاض کے بارے میں تاحال پولیس کو کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ راولپنڈی پولیس کے ڈی آئی جی احسن عباس کے مطابق ملزمہ کی گرفتاری کے لیے فوج کے اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا گیا ہے تاہم اس بارے میں ابھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

خاتون فوجی افسر اور اس کے شوہر کی طرف سے کمسن ملازمہ کو مبینہ طور پرتشدد کا نشانہ بنانے کا واقعہ سامنے آنے کے بعد ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔

واقعہ

راولپنڈی پولیس کے مطابق ولایت کالونی کی رہائشی میجر ڈاکٹر عمارہ ریاض اور ان کے شوہر محسن ریاض نے اپنی گھریلو ملازمہ 11 سالہ کنزہ کو تشدد کا نشانہ بنایا جس سے بچی کی حالت غیر ہوگئی۔

بچی کی حالت تشویشناک ہونے پر محسن ریاض نے کنزہ کے والد کو بلایا اور بچی اس کے حوالے کردی۔ بچی کا باپ محمد بشیر بیٹی کو لے کر آبائی علاقہ سمندری واپس چلا گیا۔

عباس احسن کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر محسن اور اس کی اہلیہ ڈاکٹر میجر عمارہ ریاض پر بچی پر تشدد کرنے کا الزام ہے، بچی کا میڈیکل کرایا جائے گا اور میاں بیوی کے خلاف جرم ثابت ہونے پر کارروائی کی جائے گی۔

اس سلسلے میں پنجاب پولیس کی طرف سے ہینڈآؤٹ بھی جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق بچی کے پڑوس میں رہائش پذیر کرنل سجاد نے پولیس ریسکیو کو اطلاع کی کہ ان کے پڑوس میں ڈاکٹر محسن کی گھریلو ملازمہ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

پولیس موقع پر پہنچی تو بچی کا والد بھی پہنچ چکا تھا جس نے تحریری حلف نامہ دیا کہ اس کی بچی گیٹ سے پھلانگنے کی کوشش کے دوران زخمی ہوئی،اس کی بچی کے زخموں کا محسن ریاض یا اسکے اہل خانہ کا کوئی تعلق نہیں ہے، اس کے بعد متعلقہ پولیس اہلکار واپس چلا گیا۔

اس بچی کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوچکی ہے جس میں بچی خود پر ہونے والے تشدد کے بارے میں بتارہی ہے۔ گیارہ سالہ کنزہ نے ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ مالکن اور مالک بیلٹ اور رسی سے مارتے تھے، نہ کھانا دیتے تھے، نہ رات کو سونے دیتے تھے۔ بچی کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ بھوک سے تنگ آکر کچھ چوری کرتی تھی تو اور زیادہ مارا جاتا تھا۔

کنزہ، تشدد کے واضح نشانات

سی پی او راولپنڈی احسن عباس نے معاملہ میڈیا اور سوشل میڈیا میں سامنے آنے پر متعلقہ پولیس اہلکار کو معطل کردیا اور بچی کو راولپنڈی واپس لانے کے لیے ٹیم روانہ کردی ہے۔

اسی ضمن میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اپنے ٹویٹ میں واقعے کی شدید مذمت کی ۔ ان کا کہنا ہے کہ بچی کا نام کنزہ بشیر ہے۔ واقعے کے حوالے سے بچی کے والد بشیر نے پہلے انکار کیا تھا بعدازاں تسلیم کرلیا، کم سن ملازمہ پر تشدد کے معاملے پر غفلت برتنے والے اے ایس آئی کو معطل کردیا گیا ہے اور واقعے میں ملوث تمام ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائے گی۔

پولیس کے مطابق اس معاملے میں پولیس حاضر سروس فوجی افسر کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی لہذا اس معاملہ سے پاکستان کے فوجی حکام کو بھی آگاہ کرنا ضروری تھا۔ پولیس کے مطابق میجر عمارہ ریاض کے خلاف الزامات سے متعلق پاک فوج کے حکام سے رابطہ کرکے آگاہ کردیا گیا ہے اور قانون کے مطابق ہر ممکن کارروائی کی جائے گی۔

سال 2016 میں اسلام آباد میں ایک ایڈیشنل سیشن جج کی گھریلو ملازمہ طیبہ پر شدید تشدد کیا گیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس بھی لیا تھا۔

باضابطہ عدالتی کارروائی کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کو ایک، ایک سال قید اور پچاس پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

سپریم کورٹ نے طیبہ کو سویٹ ہوم بھجوادیاتھا جہاں وہ آج بھی مقیم ہے۔