خیبر پختونخواہ کی پہلی خاتون 'وکیل استغاثہ'

پشاور میں 150 مرد پراسیکیوٹرز ہیں، جن میں وہ واحد خاتون وکیل استغاثہ ہیں۔ بقول اُن کے، ’ایک خاتون وکیل ہونے کی حیثیت سے، میں آج بہت سی گھریلو بدسلوکی کی شکار ہونے والی خواتین کو آگے بڑھ کر انصاف کے لیے لڑنے پر قائل کرچکی ہوں‘

خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والی، حسینہ سید اپنےصوبےمیں خواتین کے لیے انصاف کی حمایت میں کام کرنے والی پہلی خاتون رہنما ہیں۔ وہ 'خیبرپختونخواہ پرا سیکیوشن سروس' میں پہلی خاتون وکیل استغاثہ ہیں۔

تیس سالہ، حسینہ سید پشاور میں 150 مرد پراسیکیوٹرز میں سےواحد خاتون وکیل استغاثہ ہیں۔ حسنیہ سید معاشرے کے روایتی تصورات کےخلاف ایک عام لڑکی کی جدوجہد اور اپنے مقصد میں کامیابی پانےکی کہانی بیان کرتی ہیں۔

بقول حسینہ، ’جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں، یہاں وکالت ایک بہت بھاری ذمہ داری کا کام ہے۔ لیکن، خواتین کے لیےخاص طور پر مشکلات زیادہ ہیں۔ تاہم، ایک خاتون وکیل ہونے کی حیثیت سے، میں آج بہت سی گھریلو بدسلوکی کی شکار ہونے والی خواتین کو آگے بڑھ کر انصاف کے لیے لڑنے پر قائل کرچکی ہوں‘۔

ڈپارٹمنٹ فور انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کو دنیا بھر میں عورتوں کے لیے تیسرا خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا ہے،جہاں عدم مساوات میں بھی اس کا درجہ ابتر ہے۔ پاکستان مں خواتین کے خلاف تشدد عام ہے، خواہ وہ گھریلو تشدد، جنسی استحصال، جبری شادی، تیزاب پھینکنا، عصمت دری یا غیرت کے نام پر قتل ہو۔ پاکستان میں عورتوں کو گھریلو بدسلوکی کا نشانہ بنانا عام بات ہے۔ ہر10 میں سے 9خواتین کو گھریلو بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن، پولیس تک ان کی صرف 4 فیصد شکایات موصول ہوتی ہیں۔

حسینہ سید نےجب ایک قدامت پسند گھرانے کی روایات کے خلاف قانون کی پڑھائی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو سب سے پہلے اپنے ہی گھر والوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن، اپنے روشن خیال بھائی کی حمایت کی وجہ سے اسے اپنے والد سے ڈگری تک پڑھائی جاری رکھنے کی اجازت مل گئی۔ اور پھر، اس کے مضبوط ارادوں اور لگن کو دیکھتے ہوئےوالد کی مخالفت نے بھی ایک دن حمایت کا روپ اختیار کر لیا۔

حسینہ نے کہا کہ پولیس اور پراسیکیوشن کے شعبوں میں پڑھی لکھی عورتوں کا تناسب بہت ہی کم ہے۔ البتہ، معاشرے میں دھیرے دھیرے ان کی موجودگی کو قبول کیا جا رہا ہے۔ اور، خواتین بھی اپنے روایتی کردار کے علاوہ باہر نکل کر معاشرے کو اپنے وجود کا احساس دلا رہی ہیں۔

بقول حسینہ، میں اپنے خاندان کی پہلی لڑکی ہوں جو ملازمت کرتی ہے اور آج مجھے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنے خاندان کی مرکزی کفیل ہوں۔

’میں سمجھتی ہوں کہ ایک عورت مردوں کے بجائے ایک عورت سےاپنی تکلیف کا اظہار زیادہ آسانی سے کر لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ایسی عورت نےعدالت میں جاکر اپنے شوہر کےخلاف مقدمہ لڑا جو اسے ہر روز مارتا تھا اور ناچار ہو کر ایک دن بیوی نےاپنے شوہر پر تیزاب پھینک دیا۔ اس پیچیدہ کیس میں خاتون کو قانونی پہلووں سے آگاہ کرنا ضروری تھا، جس کے لیے میں اس سے کئی بار ملی اور اس کے حقوق کے حوالے سے سمجھایا کہ اس نے ایسا کیوں کیا اور اس کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے۔ مقدمہ کی سماعت ہوئی اور عدالت نےاس کے شوہر کو سات برس کی قید کی سزا سنائی‘۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد، حسینہ نے پشاور پراسیکیوشن سروس میں ملازمت کے لیے دراخواست ڈالی جسے قبول کر لیا گیا۔

حسینہ نے بتایا کہ ابتداٴ میں، اُنھیں کام پر ملی جلی قبولیت حاصل ہوئی۔ ایک طرف مرد ساتھیوں نے گرمجوشی کے ساتھ استقبال کیا تو دوسری طرف سینئر وکلا کی جانب سےتنقید ہوئی۔ اور ایک عورت ہونے کے ناطے، مجھے قبول نہیں کیا گیا۔ لیکن، وقت گزرنےکے ساتھ ساتھ چیزیں بدلتی گئیں۔ میں پہلے سے زیادہ بااعتماد محسوس کرنے لگی۔ مجھے تنقید برداشت کرنےکا ہنر آگیا تھا اور ان باتوں کو نظرانداز کرکے میں اپنےکاموں پر زیادہ توجہ دینے لگی۔

برطانیہ پاکستان میں سیکیورٹی اور انصاف کی سہولیات کے استحکام کے لیے خیبر پختونخواہ حکومت کو تعاون فراہم کرتا ہے۔ اور اس کے لیے پولیس اور پرا سیکیوشن کا ایک قابل دسترس نظام تشکیل دینے میں مدد کر رہا ہے تاکہ، وہ اپنی خدمات زیادہ بہتر طور پر انجام دے سکیں اور خواتین اعتماد کے ساتھ جرائم کی رپورٹ اور انصاف کا مطالبہ کر سکیں اور اس جدوجہد میں پولیس اور پراسیکیوٹرز کا کردار بہت اہم ہے۔

حسینہ سید کا کہنا ہے کہ میں نے حال ہی میں کئی تربیتی پروگراموں میں حصہ لیا، جن سے مجھے ضروری مہارت اور تکنیک حاصل ہوئی ہیں۔ میں نے یہاں وکالت میں مہارت، قانونی معلومات اور دلائل کی تشکیل دینا اور سنیئرز کے ساتھ مل کر کام کرنا سیکھا ہے۔ اور، اپنی تربیت میں سیکھی گئی مہارت کو میں اپنے روزمرہ کاموں کی انجام دہی کے لیے استعمال کرتی ہوں۔