وی کے مورتھی کے لیے دادا صاحب پھالکے ایوارڈ

وی کے مورتھی کے لیے دادا صاحب پھالکے ایوارڈ

روایت سے بغاوت کرتے ہوئے اس بار فلموں کا سب سے با وقار دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سنیماٹوگرافری کے مورتھی کو دیا گیا ہے۔ اب تک یہ ایوارڈ ان لوگوں کو ملتا رہا ہے جو کیمرے کے سامنے رہتے ہیں، یعنی فلمی ادا کار یا اداکارائیں، ڈائریکٹر، مکالمہ نگار، نغمہ نگار لیکن اس بار ایسے شخص کو اعزاز سے نوازا گیا ہے جو ہمیشہ پردے کے پیچھے رہا ہے لیکن اس نے پردے میں جان ڈال دی ہے۔

87 سالہ وی کے مورتھی اب بنگلور میں سبک دوشی کی زندگی گزار رہے ہیں، ان کی پیدائش بھی بنگلور میں ہی ہوئی تھی اور شروع میں ان کی دلچسپی وائلن بجانے سے تھی۔ بعد میں وہ جدو جہد آزادی میں جیل بھی گئے۔ انہوں نے بنگلور یونیورسٹی سے سنیماٹوگرافی میں ڈپلوما حاصل کیا تھا۔ ا س کے بعد کچھ کنڑ فلموں کی عکس بند ی کی۔ لیکن سنہ 1957ء میں وہ مشہور اداکار گرودت سے رابطہ میں آئے اور ان کی فلم ”کاغذ کے پھول“ کی عکس بندی کی۔ اس کے بعد ان کی عکس بندی کی دھوم مچ گئی۔ اس فلم کے لیے انہیں فلم فیئر ایوارڈ بھی ملا تھا۔

اس کے بعد سے مورتھی نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ گرودت انہیں آگے ہی آگے لے گئے۔ اپنی فن کاری سے مورتھی نے ’صاحب، بی بی اور غلام‘ اور ’پیاسا‘ جیسی لازوال فلموں میں جان ڈال دی۔ پیاسا کے لیے بھی انہیں فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

مورتھی نے کمال امروہوی کے ساتھ بھی کام کیا اور ان کی فلموں ’پاکیزہ‘ اور ’رضیہ سلطان‘ کی عکس بندی کی۔ ان فلموں میں بھی انہوں نے اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے اور ان میں نئی حرارت پیدا کی، جس کے باعث مورتھی کا نام بہت ہی عزت و احترام سے لیا جانے لگا۔

انہوں نے مشہور ڈائریکٹر شیام بینگل کے ایک سیریل ”ہندوستان کی کھوج“ کی بھی عکس بندی کی تھی اس کے علاوہ گووند نہلانی کے ”تمس“ میں تو ان کی عکس بندی کمال پر نظر آتی ہے۔ ان دونوں ٹی وی سیریلز کو بھی بہت ہی سراہا گیا تھا۔ نہ صرف ان کی کہانی اور ہدایت کاری کے سبب بلکہ مورتھی کی عکس کی بندی کے سبب بھی۔
اسی لیے مورتھی کو پردے کے پیچھے کا خاموش جادوگر کہا جاتا ہے۔

87 سال کی عمر میں اب مورتھی اپنے شہر بنگلور میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔