خواتین امیدواروں کاانتخابات میں حصہ لینا بڑی کامیابی ہے۔ مسرت قدیم

نگراں صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کی موجودہ صورتحال میں مرد امیدواروں کے لیے بھی انتخابی ریلیاں منعقد کرنا آسان نہیں ہو گا۔ ایسے میں خواتین امیدواروں نے ضرور سوچا ہوگا کہ وہ انتخابی مہم کیسے چلائیں گی۔
پاکستان کے عام انتخابات میں پہلی مرتبہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والی دو خواتین بادام زری اور نصرت خان بھی انتخابی امیدوار کے طور پر سیاسی میدان میں اتری ہیں۔

قبائلی علاقوں میں خواتین امیدواروں کا انتخابی میدان میں اترنا کیا کسی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا ؟ کیا یہ خواتین کامیابی سے انتخابی ریلیاں منعقد کر سکیں گی؟ کیا یہ کامیابی حاصل کرپائیں گی؟۔۔

اس بارے میں صوبہ خیبر پختون خواہ کی نگران حکومت میں اطلاعات و نشریات، تعلیم اور خواتین کی بہبود کی وزارت سنبھالنے والی سماجی کارکن مسرت قدیم کہتی ہیں کہ قبائلی علاقوں میں خواتین کی خواندگی کا تناسب صرف تین فیصد ہے۔

وہاں کی اپنی روایات اور اپنا قبائلی طریقہ کار یا کوڈ ہے۔ امن و امان کی صورتحال کا چیلنج اپنی جگہ ہے، ایسے میں قبائلی علاقوں سے خواتین کا انتخابی میدان میں اترنا ہی بہت اہم ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیئے۔ یہ سوچنا کہ ان میں سے کتنی خواتین آزادانہ طور پر انتخابی مہم چلا سکیں گی، یا کامیابی حاصل کریں گی ،کوئی معنی نہیں رکھتا ۔

مسرت قدیم

مسرت قدیم نے پشاور سے ٹیلی فون پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخواہ میں اس وقت سیکیورٹی کی جو صورتحال ہے، اس میں مرد امیدواروں کے لیے بھی انتخابی ریلیاں منعقد کرنا آسان نہیں ہو گا۔ ایسے میں خواتین امیدواروں نے بھی یقینا اس بارے میں سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کیا ہو گا کہ وہ اپنی انتخابی مہم چلانے کے لیے کیا حکمت عملی اپنائیں گی۔

مسرت قدیم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عا م طور پر لوگ شخصیات کو ووٹ دیتے ہیں، اور عمومی طور پر خواتین ہی خواتین کو ووٹ نہیں دیتیں۔ ایسے میں قبائلی علاقوں کی خواتین امیدواروں میں سے کون کامیابی حاصل کرے گی ، اس بارے میں قیاس آرائی کرنا مناسب نہیں۔ ضرورت یہ ہے کہ ان خواتین کی جرات اور بہادری کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے۔

اس سوال پر کہ خیبر پختونخواہ میں سیکیورٹی کی موجودہ صورتحال میں نگران صوبائی حکومت یہ کیسے ممکن بنائے گی کہ لوگ ووٹ دینے کے لیے گھروں سے نکلیں، مسرت قدیم کا کہنا تھا کہ نگران صوبائی حکومت کی ہر ممکن کوشش ہو گی کہ سیکیورٹی کو سخت بنایا جائے۔

’’لیکن یہ یاد رکھیے کہ دنیا کے کئی ملکوں میں، جن میں ہمسایہ ملک افغانستان بھی شامل ہے، جنگوں اور کہیں زیادہ مشکل حالات میں بھی عام انتخابات منعقد ہوئے ہیں ۔ایسے میں پاکستان کی صورتحال اتنی تشویشناک نہیں۔‘‘

مسرت قدیم کا کہنا تھا کہ ہر انتخاب کے بعد بننے والی حکومت کسی نہ کسی شکل میں تبدیلی کا باعث ضرور بنتی ہے۔

’’مجھے پوری امید ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں آنے والی تبدیلیاں مثبت ہونگی۔‘‘


سرکاری اعدا دو شمار کے مطابق پاکستان میں تین کروڑ 70لاکھ رجسٹرڈ خواتین ووٹر ہیں۔ سات قبائلی ایجنسیوں اور چھ نیم خود مختار سرحدی علاقوں پر مشتمل فاٹا کا علاقہ براہ راست وفاقی حکومت کے زیر انتظام ہے، جہاں فرنٹئیر کرائمز ریگولیشنز یا ایف سی آر کا قانون نافذ ہے۔

قبائلی علاقوں میں خواتین کا عوامی زندگی میں عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے ۔اسلام آباد کی ایک تنظیم فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2008کے انتخابات میں ملک کے 64 176پولنگ سٹیشنوں میں سے 564پر خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا گیا تھا ۔

مسرت قدیم کا انٹرویو سننے کے لئے یہاں کلک کیجئے۔

Your browser doesn’t support HTML5

انتخابات کے نتیجے میں آنے والی تبدیلیاں مثبت ہونگی ۔ مسرت قدیم انٹرویو