میانمار: قومی انتخابات، اتوار کو ووٹ ڈالے جائیں گے

ینگون

امریکی محکمہٴخارجہ کے ترجمان جان کِربی نے کہا ہے کہ امریکہ کے کلیدی اہل کار اِن انتخابات پر قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہیں، جسے میانمار میں فوجی مطلق العنانی سے جمہوریت کی جانب قدم بڑھانے کے طور پر دیکھا جارہا ہے

میانمار میں انتخابی مہم کا وقت ختم ہو چکا ہے، اور اتوار کو ووٹنگ ہو رہی ہے، جس کے نتیجے میں آن سان سوچی کی ’نیشنل لیگ فور ڈیموکریسی پارٹی‘ بھی اقتدار میں آسکتی ہے۔ مغربی ملکوں اور حقوق انسانی کے گروپوں نے آزاد، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد پر زور دیا ہے۔

امریکی محکمہٴخارجہ کے ترجمان جان کِربی نے کہا ہے کہ امریکہ کے کلیدی اہل کار اِن انتخابات پر قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہیں، جسے میانمار میں فوجی مطلق العنانی سے جمہوریت کی جانب قدم بڑھانے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

کِربی نے کہا ہے کہ امریکہ کی توجہ انتخابات کے انعقاد اور نتائج کو قابل بھروسہ، شفاف اور ممکنہ حد تک سب کی شراکت کے عنصر کو یقینی بنانے پر مرکوز ہے۔

میانمار میں برطانوی سفیر، جولیان بریتھویٹ کے بقول، ’ضرورت اس بات کی ہے کہ موجود حکومت کی نگرانی میں کرائی جانے والی ووٹنگ اچھی ساکھ والی، سب کی شراکت کو یقینی بنانے والی اور شفاف ہو، جس سے عوام کی امنگوں کی ترجمانی ہوتی ہو، جو کہ ایک دیرپہ ورثے کے حصول کا کام دے‘۔

برطانیہ کے سفیر نے کہا ہے کہ اُن کے ملک کو اس بات پر خصوصی تشویش لاحق ہے کہ ملک کی لاکھوں نسلی اور مذہبی برادریوں کو حقوق حاصل نہیں، جن میں بڑی حد تک مسلمان روہنگیا برادری بھی شامل ہے۔

’ایمنسٹی انٹرنیشل‘ نے کہا ہے کہ پُرامن سرگرم کارکنوں کو قید کرنا، آزادی اظہار پر قدغنیں اور اقلیتی گروپوں کے خلاف امتیاز برتنے کے حربے کا استعمال اہم مسائل ہیں جن سے میانمار کا انتخابی عمل متاثر ہو سکتا ہے۔

آن سان سوچی نے عام انتخابات میں حصہ لینے والے تمام افراد پر زور دیا ہے کہ وہ رائے شماری کے آزادانہ اور منصفانہ ہونے کو یقینی بنائیں۔

حالانکہ امن کی نابیل انعام یافتہ خاتون نے حکمراں جماعت کو چیلنج کرتے ہوئے سرکردہ انتخابی عمل کی قیادت کرتی رہی ہیں، موجود آئین کی رو سے اُن پر صدر بننے پر پابندی عائد ہے۔ تاہم، جمعرات کو اُنھوں نے اس بات اعلان کیا کہ اگر اُن کی جماعت انتخابات میں کامیاب ہوتی ہے تو اُن کی حکومت ’صدارتی عہدے سے بڑا کردار‘ ادا کرے گی۔

اُنھوں نے اپنے اِن کلمات کی وضاحت نہیں کی۔

میانمار کے آئین میں شہری کی کسی غیر ملکی سے شادی یا ایسی شادی سے ہونے والے بچوں کو صدر بننے پر ممانعت عائد ہے۔ آئین میں یہ شق خصوصی طور پر اس لیے شامل کی گئی تاکہ سوچی کو صدارت کے عہدے سے دور رکھا جاسکے، جن کے آنجہانی شوہر برطانوی شہری تھے۔

اتوار کے یہ قومی انتخابات سنہ 2011 کے بعد پہلے الیکشن ہیں، جب کہ تقریباً 50 برس بعد، ملک میں فوجی آمریت کا خاتمہ آیا ہے، جس کا سابق نام برما ہے۔