'خواتین کی تکلیف دیکھ کر دکھ ہوتا تھا'

جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان میں بہت سی خواتین اس لیے موت کا شکار ہو جاتی رہی ہیں کہ انھیں بروقت طبی امداد صرف اس بنا پر نہیں دی جا سکی کہ شعبہ صحت میں خواتین ڈاکٹروں اور نرسز کا فقدان تھا اور غالب قدامت پسند سوچ خواتین کے مرد معالجین سے علاج کو معیوب سمجھتی تھی۔

مشرقی صوبہ پکتیا سے تعلق رکھنے والی فائزہ ابراہیمی جب اپنے گردوپیش خواتین کو ایسی صورتحال سے دوچار دیکھتیں تو انھیں بہت افسوس ہوتا تھا۔ خواتین کی اس حالت کو بہتر بنانے کا خیال دن بدن ان کے دماغ میں توانا ہوتا گیا اور پھر انھوں نے ایک ایسے شعبے کا انتخاب کیا جس کا حصہ بن کر فائزہ ملک کی خواتین اور لوگوں کی مدد کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہو سکیں۔

انھوں نے صحت عامہ کی افغان وزارت کی طرف سے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو این ڈی پی) اور گلوبل فنڈ کے اشتراک سے شروع کیے گئے نرسنگ کورس میں داخلہ لیا اور تربیت مکمل کر کے اب کچھ عرصے سے بامیان کے ایک شفاخانے میں خدمات انجام دینے کے علاوہ نئی لڑکیوں کو نرسنگ کی تربیت بھی دے رہی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو گھر میں ویسے ہی مشکل حالات کا سامنا رہتا ہے اور اگر وہ بیمار ہو جائیں تو یہ مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔

"مجھے بہت افسوس ہوتا تھا خواتین کی حالت زار دیکھ کر، میں سوچتی تھی کہ کوئی ایسا کام ہو کہ ان کی اس تکلیف میں کمی ہو سکے۔ اب مجھے فخر ہے کہ میں اس شعبے میں آئی ہوں اور لوگوں کی خدمت کر رہی ہوں۔"

زیر تربیت نرسز (فائل فوٹو)

اس تربیتی پروگرام سے فارغ التحصیل ہونے والی ملالے کہتی ہیں کہ افغانستان میں خواتین کا خاص طور پر کام کے لیے گھروں سے باہر جانا بہت معیوب سمجھا جاتا تھا اور یہی سوچ ملکی ترقی میں بھی آڑے آتی رہی کیونکہ قوم کی ترقی میں خواتین کا بھی اتنا ہی کردار ہے جتنا کہ کسی دوسرے فرد کا۔

"افغانستان اب ترقی کر رہا ہے اور یہ بہت فخر کی بات ہے اور ہم یہ کوشش کر رہے ہیں کہ خواتین اور بھی ترقی کریں میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ذہن کُھل رہے ہیں اور یہ ہمارے لوگوں کے لیے فخر کی بات ہے۔ اگر لڑکیاں دفاتر جا رہی ہیں یا پڑھنے کے لیے جا رہی ہیں تو لوگوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔"

پکتیا کے مرکزی شہر گردیز میں نرسنگ اسکول کے تدریسی شعبے سے وابستہ ملالے کا کہنا تھا کہ انھیں یہ دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ اب بہت سی خواتین اور بچے علاج کے لیے اسپتالوں اور شفاخانوں کا رخ کرتے ہیں کیونکہ وہاں کے عملے میں قابل ذکر تعداد خواتین کی بھی ہے، لیکن ان کے بقول اس میں مزید اضافہ ضروری ہے۔

تربیتی پروگرام سے وابستہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی کے عہدیدار ڈاکٹر نسیم اللہ باور کا کہنا ہے کہ 2015ء میں شروع کیے گئے اس پروگرام کے تحت ستمبر 2016ء میں پہلی مرتبہ دو سو سے زائد خواتین نے نرسنگ کی تربیت مکمل کی۔

"یہ پروگرام اب ایک ماڈل ہے اور شعبہ صحت کے مختلف منصوبوں میں اس طرح کی تربیت کو بھی شامل کیا جا رہا ہے اور حال ہی میں 'صحت' کے نام سے شروع کیے گئے منصوبے میں نرسنگ کے ساتھ ساتھ دائیوں کی تربیت کا پروگرام بھی شروع کیا گیا۔"

ان کے بقول تربیت مکمل کرنے والی خواتین کو ان کے ہی علاقوں میں بھیجا جاتا ہے۔

ڈاکٹر باور کا بھی یہ کہنا تھا کہ افغانستان میں حالات مثبت انداز میں تبدیل ہو رہے ہیں اور خواتین شعبہ صحت میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آگے آ رہی ہیں۔