ایران جوہری سمجھوتا، ویٹو کی ضرورت پیش نہیں آئے گی

ایران سمجھوتے کی حمایت کے لیے اوباما قانون سازوں پر زور دیتے رہے ہیں، جب کہ اب اُنھوں نے اتنے ووٹ حاصل کر لیے ہیں کہ اُن کے مخالفین اس کی منظوری کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔

امریکی سینیٹ میں ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتے کے حق میں ڈیموکریٹ ارکان کی تعداد 41 ہو گئی ہے، جس کے نتیجے میں سمجھوتے کے خلاف قرارداد کی نامنظوری کی راہ روکی جاسکتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ اب صدر براک اوباما کی جانب ویٹو کی نوبت نہیں آئے گی، جسے اُن کے لیے ایک اہم سیاسی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔

امریکہ اور پانچ دیگر عالمی طاقتوں نے جولائی میں ایران کے ساتھ ایک سمجھوتا طے کیا تھا۔ اس سمجھوتے کے ذریعے ایران کے جوہری پروگرام کو روکا جاسکے گا، جس کے بدلے ایران کے خلاف عائد تعزیرات میں نرمی برتی جاسکے گی، جن کی وجہ سے ایران کی معیشت کی رفتار بُری طرح رُک چکی ہے۔


امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو ایک مدت سے شبہ ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کو نیوکلیئر ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کر رہا ہے، جس الزام کو ایران مسترد کرتا رہا ہے۔

ادھر، ایوانِ نمائندگان میں اوباما کی ڈیموکریٹک پارٹی کے برعکس ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان کو اکثریت حاصل ہے۔ متوقع طور پر ایوانِ نمائندگان میں ایران سمجھوتے کے خلاف قرارداد منظور ہوجائے گی۔ لیکن، سینیٹ کی حمایت کے بغیر، یہ محض ایک علامتی قانون سازی ہوگی۔

ایران سمجھوتے کی حمایت کے لیے اوباما قانون سازوں پر زور دیتے رہے ہیں، جب کہ اب اُنھوں نے اتنے ووٹ حاصل کر لیے ہیں کہ اُن کے مخالفین اس کی منظوری کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ تاہم، اب کانگریس کے مخالفین صدر کو ویٹو کا اختیار استعمال کرنے پر مجبور نہیں کرسکیں گے۔


پھر بھی، اس مباحثے کے نتیجے میں اُن کے ناقدین کو یہ موقع ضرور میسر آیا کہ وہ سمجھوتے کے خلاف شکایات پر مبنی اپنی آواز بلند کریں۔

مخالفین کے خیال میں سمجھوتے میں ایران کا پلڑا بھاری ہے، چونکہ اُس کے جوہری پروگرام کو برقرار رہنے دیا گیا ہے، جب کہ ایران کو رُکے ہوئے اربوں ڈالر میسر آئیں گے، جس کے بارے میں کچھ حلقے اس خدشے کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ اسے دہشت گردی کی اعانت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔