رسائی کے لنکس

ایک اور ڈیموکریٹ سینیٹر نے جوہری معاہدے کی مخالفت کر دی


سینیٹر رابرٹ میننڈیز
سینیٹر رابرٹ میننڈیز

سینیڑ میننڈیز نے کہا کہ صدر براک اوباما یہ کہنے میں غلط ہیں کہ اس معاہدے سے مستقل طور پر ایران کا ایٹمی پروگرام رک جائے گا۔

ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک اور معروف سینیٹر نے کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے خلاف ووٹ دیں گے، جس سے کانگریس میں اس کی منظوری مزید غیر یقینی ہو گئی ہے۔

نیو جرسی سے سینیٹر رابرٹ میننڈیز نے منگل کو سیٹن ہال یونیورسٹی مین اپنی تقریر میں کہا کہ ان کے خیال میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے اس کے پاس ’’ ایک مضبوط جوہری ڈھانچے کا بنیادی عنصر‘‘ موجود رہے گا۔

’’اگر ایران ایٹمی بم بنا لے تو میں نہیں چاہوں گا کہ اس پر میرا نام موجود ہو۔ میں اس معاہدے کو نامنظور کرنے کے لیے ووٹ دوں گا، اور اگر ضرورت پڑی تو (صدارتی) ویٹو کو منسوخ کرنے کے لیے ووٹ دوں گا۔‘‘

سینیڑ میننڈیز نے کہا کہ صدر براک اوباما یہ کہنے میں غلط ہیں کہ اس معاہدے سے مستقل طور پر ایران کا ایٹمی پروگرام رک جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایران نے ماضی میں بھی جوہری عزائم ترک کرنے کے وعدوں کی خلاف ورزی کی۔

میننڈیز کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ ایران کے جوہری ڈھانچے کو محدود کرے گا مگر اس کو ختم نہیں کرے گا۔

اسرائیل کے مضبوط حمایتی میننڈیز کی تقریر میں معاہدے کا تفصیلی اور تکنیکی تجزیہ شامل تھا۔ انہوں نے کہا کہ اوباما کے پورے دور اقتدار میں انہوں نے صدر کی حمایت کی، جس میں وال سٹریٹ اور صحت کی اصلاحات کے اقدام شامل تھے۔

تاہم میننڈیز نے کیوبا کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے سے اختلاف کیا اور جوہری بم بنانے کی صورت میں ایران سے جنگ کرنے کی دھمکیوں پر سوال اٹھایا۔

انہوں نے رپبلیکن پارٹی کے ارکان پر بھی تنقید کی جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ’’صدر اوباما کی جانب سے تجویز کیے گئے کسی بھی منصوبے کی بغیر سوچے سمجھے مخالفت‘‘ کرتے ہیں۔

میننڈیز نے اوباما انتظامیہ پر مذاکرات کی میز پر واپس جانے اور بنیادی عناصر پر دوبارہ بات چیت پر زور دیا، مگر انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا ناممکن ہو گا۔

گزشتہ ماہ ڈیموکریٹک پارٹی کے تیسرے اہم ترین رکن نیویارک کے سینیٹر چک شومر نے بھی جوہری معاہدے کے خلاف ووٹ ڈالنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اپنے ساتھی سینیٹروں کو بھی اس معاہدے کو مسترد کرنے پر قائل کریں گے۔

ایران کے ساتھ معاہدے پر امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں ستمبر میں رائے شماری ہو گی جس میں کانگریس ارکان معاہدہ منظور کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کریں گے۔

صدر اوباما یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر کانگریس نے جوہری معاہدے کے خلاف ووٹ دیا تو وہ اسے مسترد کر دیں گے۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ کانگریس کے پاس صدر کا ویٹو منسوخ کرنے کے لیے کافی ووٹ ہیں یا نہیں۔

درین اثنا ہتھیاروں پر کنٹرول اور جوہری عدم پھیلاؤ سے متعلق ماہرین کے ایک گروپ نے اس معاہدے کی حمایت کی ہے، اور اسے ایک ’’مضبوط، طویل المدتی اور قابل تصدیق‘‘ سمجھوتا کہا ہے۔

واشنگٹن میں قائم ’آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن‘ نے کہا ہے کہ سمجھوتا عالمی برادری کے سلامتی کے مفادات کو فروغ دیتا ہے۔

گروپ نے کہا ہے کہ ’’مستقبل میں ایران کی جانب سے جوہری ہتھیار بنانے کی کسی بھی کوشش، حتیٰ کہ خفیہ پروگرام کا بھی فوری طور پر پتا لگا لیا جائے گا۔‘‘

سمجھوتے کے حق میں بیان پر 70 سے زائد ماہرین کے دستخط ہیں، جن میں جوہری توانائی کے عالمی ادارے کے سابق سربراہ ہینس بلکس اور امریکی نیوکلیئر ریگولیٹری کمیشن کے سابق چیئرمین جان اہرن شامل ہیں۔

XS
SM
MD
LG