اوباما کا الواداعی خطاب، کامیابیوں اور ملک کی نئی سمت پر گفتگو متوقع

President Barack Obama, File Photo

بقول صدر ’’2009ء سے ہمیں بہت سے چیلنجوں سے سابقہ پڑا، اور ہم نے نہایت پختگی سے اُن کا مقابلہ کیا؛ چونکہ ہم ملک کے بانیوں کی طے کردہ ہدایات سے کبھی نہیں بھٹکے۔۔ بحیثیتِ مجموعی ہمارا یہ یقین ہے کہ مل کر تبدیلی لا کر ہم اس ملک کو بہتری کی جانب لے جا سکتے ہیں‘‘

امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ وہ آئندہ ہفتے الوداعی خطاب کریں گے، جس میں عہدہٴ صدارت کے دوران اپنی کامیابیوں کا احاطہ کریں گے، اور اس بات پر اپنا نقطہ نظر پیش کریں گے آیا 20 جنوری کو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک کس سمت جا سکتا ہے۔

پیر کو اپنے حامیوں کو بھیجی گئی ایک اِی میل میں،

https://www.whitehouse.gov/blog/2017/01/02/my-farewell-address

اوباما نے کہا ہے کہ 10 جنوری کو اپنے آبائی شہر، شکاگو سے اپنے خطاب میں، ’’میں اپنے دلچسپ سفر پر سب کا شکریہ ادا کروں گا، گذشتہ آٹھ برس کے دوران تبدیلی کے طریقہٴ کار کو اپنا کر ملک کو بہتری کی جانب لے جانے پر خوشی منائیں گے اور اس متعلق اپنے کچھ خیالات پیش کروں گا، آیا ہم سب یہاں سےآگے کہاں جائیں گے‘‘۔

پچپن برس کے صدر نے کہا کہ ’’2009ء سے ہمیں بہت سے چیلنجوں سے سابقہ پڑا، اور ہم نے نہایت پختگی سے اُن کا مقابلہ کیا؛ چونکہ ہم ملک کے بانیوں کی طے کردہ ہدایات سے کبھی نہیں بھٹکے۔۔ بحیثیتِ مجموعی ہمارا یہ یقین ہے کہ مل کر تبدیلی لا کر ہم اس ملک کو بہتری کی جانب لے جا سکتے ہیں‘‘۔

یہ امریکی صدور کی جانب سے متعین کردہ طویل مدتی روایت کا مظہر ہوگا، جس کا آغاز سنہ 7196ء میں جارج واشنگٹن نے کیا تھا، یعنی عہدہٴ صدارت سے سبک دوش ہونے سے قبل، قوم سے خطاب کرنا۔

جزیرہ نما ہوائی میں کرسمس کی سالانہ تعطیلات گزارنے کے بعد، اوباما پیر کے روز واشنگٹن واپس پہنچے ہیں، جہاں وہ پیدا ہوئے تھے اور اپنی نوجوانی کا کافی وقت گزارا تھا۔

مشیروں کا کہنا ہے کہ عہدہٴ صدارت کے آخری ڈھائی ہفتوں کے دوران، متوقع طور پر اوباما منشیات کے عادی مزید قیدیوں کو عام معافی دیں گے، جن کے بارے میں اُن کا خیال ہے کہ اُن سے ضرورت سے زیادہ سختی برتی گئی ہے؛ عین ممکن ہے کہ وہ کئی انتظامی احکامات جاری کریں، تاکہ اُن پالیسیوں کو دوام بخشا جا سکے جنھیں وہ پسند کرتے ہیں جب کہ ٹرمپ اُن کے مخالف ہیں۔

ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے، اوباما نے ٹرمپ کے ساتھ ایک بالمشافیٰ ملاقات کی ہے اور کئی بار ٹیلیفون پر گفتگو میں ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ٹرمپ کے عبوری دور میں سہولت فراہم کرنے کی یقین دہائی کرا چکے ہیں۔ اُنھوں نے کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں جو نئے صدر کی مایوسی کا باعث بنے ہیں۔ اوباما نے امریکی ساحل کے ساتھ سمندر کی تہ سے تیل کی کھدائی پر بندش کے نئے احکامات جاری کیے ہیں، قومی پارکس پر نئی یادگاریں قائم کی ہیں اور کیوبا کے گوانتانامو بے کے بحری اڈے پر قائم امریکی قیدخانے سے مزید مشتبہ دہشت گردوں کو رہائی دی ہے۔

پہلی بار اوباما نے اقوام متحدہ کے سفیر کو سلامتی کونسل میں قرارداد منظور کرنے کی اجازت سے متعلق احکامات دیے، جس میں مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر پر نکتہ چینی کی گئی؛ اور امریکی صدارتی انتخابی مہم کے دوران روس کی جانب سے کمپیوٹر ہیکنگ پر روس کے خلاف تعزیرات عائد کیں، جو دونوں اقدامات ٹرمپ کی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتے۔

بدھ کو کانگریس میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان سے ملاقات کے دوران، اوباما ایک حکمتِ عملی وضع کرنے کی کوشش کریں گے، جس میں صحت کی دیکھ بھال کی اصلاحات سے متعلق اُن کی فخریہ کامیابی کو تحفظ فراہم ہو سکے؛ جسے ٹرمپ اور ری پبلیکن قانون سازوں نے منسوخ کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے، حالانکہ ابھی اُنھیں اِس بات پر متفق ہونا ہے کہ متبادل کے طور پر اُن کے پاس کون سا منصوبہ ہے جسے وہ منظور کرنے کے خواہاں ہیں۔