سب کا مفاد ایسے افغانستان و پاکستان میں ہے جو مستحکم، خوشحال اور جمہوری ہوں: اوباما

فائل فوٹو

بھارت کے دورے میں صدر اوباما پر اُس ملک کے ذرائع ابلاغ میں اِس بات پر کڑی تنقید کی گئی تھی کہ پاکستان کے معاملے میں وہ نہایت زیادہ نرمی برت رہے ہیں

پاکستان کا کہنا ہےکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہندوستان کی مستقل رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کے لیے امریکی حمایت سے اِس ادارے کی اصلاح کرنے کی کوششوں میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہوجائیں گی۔

پاکستانی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں اِس امید کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ اقتدار کی سیاست کی عارضی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر اِس کو اخلاقی نقطہٴ نظر سے دیکھے گا۔


بھارت کے دورے میں صدر اوباما پر اُس ملک کے ذرائع ابلاغ میں اِس بات پر کڑی تنقید کی گئی تھی کہ پاکستان کے معاملے میں وہ نہایت زیادہ نرمی برت رہے ہیں۔

بھارتی پارلیمنٹ میں صدر اوباما نے کہا تھا کہ ‘ہم پاکستان کے لیڈروں پر زور دیتے رہیں گے کہ اُن کی سرحدوں کے اندر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ناقابلِ قبول ہیں اور یہ کہ ممبئی کے حملوں کے ذمہ دار لوگوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا ضروری ہے۔

ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم سب کا مفاد ایسے افغانستان اور پاکستان میں ہے جو مستحکم، خوشحال اور جمہوری ہوں اور بھارت کا بھی اِسی میں مفاد ہے۔’

پاکستان نے ممبئی حملوں میں ملوث سات افراد کو پکڑ رکھا ہے اور اُن کا انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت کے بند کمرے میں مقدمہ چل رہا ہے۔

ایک حالیہ بریفنگ کے دوران دفترِ خارجہ کے ترجمان عبد الباسط نے کہا تھا کہ پاکستان ممبئی حملوں کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عہد کرچکا ہے، لیکن اِس کے لیے بھارت کی امداد اور تعاون کی ضرورت ہے۔ ہم اپنی طرف سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔

مسٹر اوباما کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں وزیرِ اعظم من موہن سنگھ نے کہا تھا کہ آپ مذاکرات کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی دہشت کی مشین کو بھی چالو نہیں رکھ سکتے۔ لیکن جونہی پاکستان دہشت کے بل بوتے پر دباؤ ڈالنے کی راہ سے ہٹ جائے گا، ہمیں پاکستان کے ساتھ نتیجہ خیز گفتگو کرنے میں خوشی ہوگی تاکہ مسئلے حل ہوں۔

صدر اوباما نے اِس موقعے پر کشمیر کے قضیے پر براہِ راست کچھ کہنے سے احتراز کیا لیکن اُنھوں نے کہا کہ علاقائی سلامتی کے مفاد میں ہم ہندوستان اور پاکستان کے مابین مکالمے کا خیرمقدم کریں گے، کیونکہ ہمیں اندازہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعوں کو اُن کے عوام ہی حل کر سکتے ہیں۔

ایک سابق پاکستانی سفارتکار، طارق فاطمی کا کہنا تھا کہ بھارت میں صدر اوباما نے محتاط ہو کر بھارت اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ کوشش کی کہ پاکستان ناراض نہ ہو۔

مسٹر فاطمی نے کہا کہ بنیادی طور پر مسٹر اوباما نےمحفوظ راہ اختیار کی، وہ بلا شبہ بھارت کے ساتھ مضبوط رشتے قائم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن، اُنھیں اُس اہم کردار کا بھی احساس ہے جو پاکستان، افغانستان کے تنازع پر ہونے والے مباحثے میں ادا کرے گا۔

صدر اوباما نے اگلے سال پاکستان کا دورہ کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔