بھارت میں کرونا بحران کے دوران اس وقت ایک بڑا حادثہ پیش آیا جب ریاست مہاراشٹرا کے شہر ناسک میں ایک اسپتال کے باہر آکسیجن ٹینکر کے لیک ہونے سے کرونا وائرس کے 22 مریض آکسیجن کی عدم دستیابی سے ہلاک ہو گئے۔
کلکٹر سورج مندھارے نے بھارت کے نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کو بتایا کہ ناسک میں ذاکر حسین میونسپل اسپتال میں یہ حادثہ پیش آیا ہے۔ حادثے کے وقت اسپتال میں 171 مریض تھے اور 31 مریضوں کو آکسیجن کی ضرورت تھی۔
ناسک میونسپل کارپوریشن کے کمشنر کیلاش جادھو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹینکر لیک ہونے کی وجہ سے نصف گھنٹے تک آکسیجن کی سپلائی بند رہی جس کی وجہ سے وینٹی لیٹرز پر موجود مریضوں کی اموات ہوئیں۔
مہاراشٹرا کے وزیرِ صحت راجیش ٹوپے نے اس واقعہ کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب حالات قابو میں ہیں۔
The tragedy at a hospital in Nashik because of oxygen tank leakage is heart-wrenching. Anguished by the loss of lives due to it. Condolences to the bereaved families in this sad hour.
— Narendra Modi (@narendramodi) April 21, 2021
وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے ہلاک شدگان کے اہل خانہ سے اظہارِ تعزیت کیا ہے۔
اسپتال کے چیف میڈیکل افسر کے مطابق ہلاک شدگان کے لواحقین کو پانچ پانچ لاکھ روپے دیے جائیں گے اور حادثے کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کرائی جائیں گی۔
نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے رہنما مجید میمن نے کہا کہ ٹینکر لیک ہونے کی وجہ سے کئی لیٹر آکسیجن کا نقصان ہوا۔ اس حادثے کی وجہ سے اسپتال میں افراتفری پھیل گئی تھی۔ جو لوگ بھی اس کے ذمہ دار ہوں گے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
یومیہ کیسز تین لاکھ کے قریب
ادھر بھارت میں کرونا کے یومیہ کیسز تین لاکھ کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران دو لاکھ 95 ہزار 41 افراد کے وبا سے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ جب کہ اس دوران 2023 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو ایک طوفان کی شکل میں کرونا کا سامنا ہے۔ جو کہ صحت کے نظام پر غالب آ گیا ہے۔
انہوں نے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ ملک میں صحت ایمرجنسی کا خیال کرکے گھبراہٹ میں مبتلا نہ ہوں اور گھروں سے باہر نہ نکلیں۔
#IndiaFightsCorona:2,023 deaths were reported in the last 24 hours.Ten States account for 82.6% of the new deaths. Maharashtra saw the maximum casualties (519). Delhi follows with 277 daily deaths.Details: https://t.co/vBsLIGiktn#Unite2FightCorona #StaySafe pic.twitter.com/WFiHRj0QxW
— #IndiaFightsCorona (@COVIDNewsByMIB) April 21, 2021
انہوں نے ریاستی حکومتوں سے اپیل کی کہ وہ اموات میں ریکارڈ اضافے کے باوجود لاک ڈاؤن لگانے سے بچیں۔ اسے آخری متبادل کے طور پر اختیار کریں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت کرونا کی دوسری لہر پر قابو پانے کی غرض سے ملک گیر سطح پر اسپتالوں میں بیڈ، آکسیجن اور اینٹی وائرل ادویات کی سپلائی کو یقینی بنانے کے لیے مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مرکز، ریاستی حکومتیں اور نجی سیکٹر ضرورت مندوں تک آکسیجن کی سپلائی کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ ہم پورے ملک میں آکسیجن کی پیداوار اور سپلائی کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کے بقول چند ہفتے قبل تک صورتِ حال قابو میں تھی لیکن کرونا کی دوسری لہر ایک طوفان کی شکل میں آئی ہے۔
جب کہ حکومت کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ دارالحکومت دہلی میں بدھ سے اسپتالوں میں آکسیجن ختم ہونا شروع ہو جائے گی۔
’اقتصادی مفادات کو انسانی جانوں پر غلبہ حاصل نہیں ہو سکتا‘
دریں اثنا دہلی ہائی کورٹ نے کرونا کی صورت حال سے متعلق ایک معاملے پر سماعت کے دوران اسپتالوں کے حالات کے پیشِ نظر حکومت سے سخت لب و لہجے میں کہا کہ اقتصادی مفادات کو انسانی جانوں پر غلبہ حاصل نہیں ہو سکتا۔
عدالت نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ اسٹیل اور پیٹرولیم مصنوعات کے لیے دی جانے والی آکسیجن اسپتالوں میں منتقل کی جائے۔
Everyone above the age of 18 shall be eligible for #COVID19 vaccination from May 1, 2021Also, don%27t forget to follow COVID appropriate behaviour even after you take the vaccine#Unite2FightCorona #LargestVaccineDrive pic.twitter.com/2auxUlS9Ty
— PIB India (@PIB_India) April 21, 2021
حکومت نے عدالت میں پیش کیے جانے والے اپنے حلف نامے میں کہا ہے کہ اسپتالوں کو آکسیجن کی سپلائی میں کوئی وقفہ نہیں آ رہا اور صنعتی اداروں میں آکسیجن کا استعمال 22 اپریل سے بند کر دیا جائے گا۔
دہلی حکومت کی طرف سے عدالت میں پیش ہونے والے وکیل راہول مہرا نے کہا کہ آئی ناکس نامی ایک کمپنی نے عدالت کی ہدایت کے باوجود دہلی کو آکسیجن کی سپلائی بند کر دی اور اس نے دوسری ریاستوں کو آکسیجن بھیج دی۔
ویکسین کی بڑے پیمانے پر بربادی پر بھی عدالت کا اظہارِ تشویش
عدالت نے ویکسین کی بڑے پیمانے پر بربادی پر بھی اپنی تشویش ظاہر کی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ویکسین کی 10 کروڑ خوراکوں میں سے اب تک 44 لاکھ خوراکیں برباد ہو چکی ہیں۔
ایک سینئر تجزیہ کار ابھے دوبے نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کرونا کی پہلی لہر کے دوران حکومت کی پالیسی کچھ اور تھی اب کچھ اور ہے۔ پہلے حکومت نے نیشنل ڈزاسٹر ایکٹ نافذ کیا تھا۔ ریاستوں کے اختیارات اپنے ہاتھوں میں لے لیے تھے۔ وزارتِ داخلہ میں وزرا کا ایک گروپ بنایا گیا تھا جو صورتِ حال کا جائزة لیتا تھا۔
ان کے مطابق اس بار حکومت نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ اس بار ساری ذمہ داری ریاستی حکومتوں پر ڈال دی گئی ہے۔ حالاں کہ اس دوسری لہر میں پہلے والی پالیسی کو اور سختی سے نافذ کرنے کی ضرورت تھی۔
Centre tells Bombay HC door-to-door COVID #vaccination not possible due to various reasons, including chances of contamination & wastage
— Press Trust of India (@PTI_News) April 21, 2021
ان کے بقول حکومت نے ایسا اس لیے کیا کہ اگر حالات زیادہ خراب ہوں تو اس پر ذمہ داری عائد ہونے کے بجائے ریاستوں پر عائد ہو اور اس سے جو سیاسی نقصان ہونے والا ہے اس سے بچا جا سکے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پہلی لہر کے کمزور پڑنے کے ساتھ ہی حکومت نے دوسرے ملکوں کو ویکسین کی سپلائی شروع کر دی تھی۔ اس نے سوچا ہو گا کہ ہم آہستہ آہستہ لوگوں کو ویکسین لگاتے رہیں گے۔ لیکن اچانک دوسری لہر آگئی جو زیادہ خطرناک ہے تو ملک میں ویکسین کی قلت ہو گئی ہے۔
ان کے مطابق دوسرے ممالک کو ویکسین سپلائی کرنے میں حکومت سے اندازے کی غلطی ہوئی ہے۔
حزبِ اختلاف کی تنقید
حزب اختلاف نے صورتِ حال کی سنگینی کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔
کانگریس کی جنرل سیکریٹری پرینکا گاندھی نے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم کو عوام میں اپنی ساکھ بہتر بنانے کی کوشش کے بجائے کرونا پر قابو پانے کے لیے حزبِ اختلاف سے بات کرنی چاہیے۔
Shameful state of affairs. One of the largest oxygen producing countries in the world is being forced to import as its leadership fails to deliver oxygen to its own despairing citizens.Why did they double exports in the middle of the pandemic in 2020? https://t.co/CfiiyZ851N
— Priyanka Gandhi Vadra (@priyankagandhi) April 21, 2021
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ پوری سنجیدگی کے ساتھ حالات پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔