’’افغان وزیرستان‘‘ سے سرحد پار حملے جاری

(فائل فوٹو)

ایسا لگتا ہےسرحد کی دوسری جانب بھی ایک شمالی وزیرستان بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پاکستان میں فوجی حکام نے کہا ہے کہ بدھ کی صُبح ایک سرحدی چوکی پر افغانستان کی جانب سے کیے گئے ’’شرپسندوں‘‘ کے تازہ حملے کو پسپا کر دیا گیا۔

ایک مختصرسرکاری بیان کے مطابق اس جھڑپ میں دو فوجی زخمی ہو گئے۔

’’سرحد پار سے20 تا 30 شرپسندوں نے کُرم ایجنسی میں ہماری نوازش چوکی پر صُبح 10 بجے فائرنگ کرتے ہوئے اچانک دھاوا بول دیا۔ ہمارے سپاہیوں کی موثر جوابی کارروائی نےعسکریت پسندوں کو افغانستان واپس فرار ہونے پر مجبورکر دیا۔‘‘

سرحد پار سے ان حملوں کے باعث دوطرفہ سفارتی تعلقات میں کشیدگی بڑھی ہے۔
پاکستان کا الزام ہے کہ سوات اور افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں سے فرار ہونے والے طالبان شدت پسندوں نےافغانستان کے مشرقی کنڑ اور نورستان صوبوں میں مقامی جنگجوؤں کی مدد سےمحفوظ پناہ گاہیں قائم کرلی ہیں۔

حکام کے بقول ان ’’شرپسند‘‘ عناصر نے گزشتہ ایک سال کے دوران سرحد پار فوجی اور شہری اہداف پر کم از کم پندرہ حملے کیے ہیں جن میں پاکستانی سپاہیوں اور شہریوں سمیت مجموعی طور پر100 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔


حکومت پاکستان ان سرحدی دراندازیوں کو روکنے میں افغان حکومت کی ناکامی پر کڑی تنقید کرتی آئی ہے اوراس پر باضابطہ احتجاج بھی کرچکی ہے۔

لیکن اس کے برعکس افغانستان میں حکام نے حالیہ دنوں میں پاکستانی فوج پر سرحد پار بھاری توپ خانے سے بلااشتعال شدید بمباری کے الزامات لگائے ہیں جن میں مبینہ طور پر کئی شہری ہلاک بھی ہوئے ہیں۔

پاکستان نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے یہ موقف اپنایا ہے کہ سرحد پر جوابی کارروائی اُسی سمت میں کی جاتی ہے جہاں سے عسکریت پسند اُس کی تنصیبات پر حملہ آور ہوتے ہیں۔


طالبان شدت پسند (فائل فوٹو)

پاکستان میں بعض قوم پرست اراکین پارلیمان کا خیال ہے کہ مفرورعسکریت پسندوں کو سرحدی علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں قائم کرنے اور پاکستانی تنصیبات پر سرحد پارحملوں کی حوصلہ افزائی شمالی وزیرستان میں موجود حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کے افغان مطالبات کو نظر انداز کرنے کا ردعمل ہے ہو سکتا ہے۔ ان سیاسی حلقوں کے بقول ’’ایسا لگتا ہےسرحد کی دوسری جانب بھی ایک شمالی وزیرستان بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘‘۔

حکمران اتحاد میں شامل ایک اہم سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان دونوں کو سرحدی خلاف ورزیوں کے مسئلے کا حل مل بیٹھ کرتلاش کرنا ہوگا۔

’’اگر افغانستان الزام لگاتا ہے کہ ہماری طرف سے دراندازی ہوئی ہے تو ہمیں ان کی تسلی کرنی چاہیئے اور اگر کوئی ایسی سرگرمی ہو رہی ہے تو اُس کو روکنا چاہیئے۔ اسی طرح سے افغانستان کے اندر سے پاکستان کے خلاف جو ہو رہا ہےاُس کو بھی روکنا چاہیئے۔ غیر ممالک تو ایک دن یہاں سے چلے جائیں گے مگر افغانستان اور پاکستان کو یہیں رہنا ہے لہذا دونوں کو آپس میں ان مسائل پر بات کرنی چاہیئے کیونکہ ہمسایہ ملک ساری عمر دشمنی نہیں کر سکتے۔‘‘

پاکستان کے روزنامہ ڈان نے بدھ کو صفہ اول پرشائع ہونے والی ایک خبر میں دعویٰ کیا ہے کہ افغان حکام نے پاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ حالیہ رابطوں میں سوات طالبان کے مفرور کمانڈر ملا فضل اللہ اور دیگر شدت پسند رہنماؤں کی اپنی سر زمین پر موجودگی کا اعتراف کیا ہے۔


افغان صدر کرزئی اور پاکستانی وزیراعظم اشرف

مگر اخبارکے مطابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے دورہ کابل کے دوران بات چیت میں افغان حکام نے ان سرحدی خلاف ورزیوں میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کے مطالبات پر ہچکچاہٹ ظاہر کی۔

رپورٹ میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ افغانستان کا نیشنل ڈائریکٹریٹ آف سکیورٹی یا این ڈی ایس ادارہ اسے ایک ’’حربے‘‘ کے طور پر استعمال کررہا ہے البتہ اتحادی افواج یا ایساف کے اس میں ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ کابل میں وزیراعظم پرویز اشرف کے ساتھ بات چیت میں افغان صدر حامد کرزئی سرحدی دراندازیوں میں ملوث عناصر کے خلاف ’’غیر مشروط ‘‘ کارروائی کرنے پر آمادگی ظاہر کرنے سے گریزاں تھےاور حقائق جاننے کے لیے انھوں نے محض ایک مشترکہ کمیشن تشکیل دینے پررضا مندی ظاہر کی۔

’’اعلیٰ (پاکستانی) فوجی قیادت کو اب یقین ہو چلا ہے کہ افغان حکام کا پاکستانی عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی نا کرنا اس تاثر کا ردعمل ہو سکتا ہے کہ قبائلی علاقوں میں موجود افغان جنگجوؤں کے خلاف پاکستان ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا ہے۔‘‘