طالبان امریکہ معاہدے کے سہولت کار پاکستان کو کیا مل سکتا ہے؟

دوحہ میں طالبان لیڈر ملا عبدالغنی برادر اور امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے امن معاہدے پر دستخط کیے۔ 29 فروری 2020

امریکہ افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے اور وہاں متحارب فریق کے ساتھ امن معاہدے کا خواہاں تھا۔ سال بھر قبل جب طالبان غیر ملکی افواج کی افغان سرزمین پر موجودگی کے دوران کسی بھی طرح مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اس عرصے میں قطر کے شہر دوحہ میں مذاکرات کے درجن بھر ادوار کے بعد امن معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں۔ پاکستان کا دعوی ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور سہولت کار کا کردار ادا کرنے اس نے پوری صلاحیتیں بروئے کار لائی ہیں۔

دوحہ مذاکرات میں ایسا کیا مختلف تھا کہ وہ کامیابی پر انجام پذیر ہوئے؟ آگے کا راستہ کتنا پیچیدہ ہے اور پاکستان اس بڑی پیش رفت کے بعد خود کو درپیش مسائل میں واشنگٹن سے کس طرح کی مدد کی توقع کر سکتا ہے؟

پاکستان کی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید کے مطابق اس سے پہلے مذاکرات کی کوششوں سے موازنہ کیا جائے تو جو واضح فرق نظر آتا ہے وہ ہے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی افغانستان پالیسی میں واضح تبدیلی۔

’’ صدر ٹرمپ نے اپنے کیمپ کے اندر مخالفت کے باوجود دلیرانہ فیصلے کیے۔ میرے خیال میں امریکہ کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو بھی اس طرح کے حل سے مسئلہ تھا اور بعض نے تو مخالفت بھی کی۔ لیکن انہوں نے دلیرانہ فیصلے کیے اور پھرٕ ماضی کی آزمودہ ناکام پالیسیوں کے تجربے سے سبق سیکھا کہ فوجی طاقت مسئلے کا حل نہیں بلکہ سیاسی مذاکرات ہیں‘‘۔

پاکستان سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید

ان کے بقول ٹرمپ، جان ایف کینیڈی کے بعد غالباً پہلے صدر ہیں جو امریکی اسٹیبلشمنٹ سے نہیں ہیں۔ وہ نظام کے لیے ایک بیرونی عنصر ہیں جو غیر روایتی سوچ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ آوٹ آف باکس سوچتے ہیں۔ وہ بالکل واضح تھے کہ افغانستان میں امریکہ کا داخل ہونا ایک تباہ کن خارجہ پالیسی تھی۔ دوسرا اہم فیکٹر یہ تھا کہ زمینی صورت حال ایسی تھی کہ ایک تعطل تھا اور دونوں فریقوں کے لیے یہ جنگ جیتنے کے قابل ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن چکی تھی۔ میں کہوں گا کہ امریکہ کے صدر ٹرمپ، دوسری طرف طالبان قیادت نے معمول سے ہٹ کر کام کیا۔

سینیڑ مشاہد حسین کے مطابق پاکستان اور افغان طالبان کی سوچ میں بھی واضح تبدیلی آئی ہے۔

’’دوسری طرف طالبان نے بھی محسوس کیا کہ امن ان کے لوگوں کی ضرورت ہے۔ اور پھر پاکستان کی حکومت نے بالخصوص آرمی اسٹیبلشمنٹ نے، جنرل باجوہ نے بہت تعمیری کردار ادا کیا۔ کیونکہ افغانستان کے لیے پاکستان کی ماضی کی کچھ غلطیوں کو دوہرایا نہیں گیا، ایک نئی پالیسی بنائی گئی جس نے اس عمل کو کامیابی تک پہنچایا‘‘۔

واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں پاکستان سینٹر کے ڈائریکٹر مارون وائن بام بھی کہتے ہیں کہ اس بار کے مذاکرات میں کامیابی کی وجہ صدر ٹرمپ اور امریکہ کی اندرونی سیاست ہے۔

’’ یہ الیکشن کا سال ہے۔ صدر ٹرمپ اپنی مہم میں ہر صورت باور کرانا چاہتے ہیں کہ اپنی فوجیوں کو واپس لانے اور نہ ختم ہونے والی جنگ کو ختم کرنے کا وعدہ پورا ہو گیا۔ اس لیے صدر ٹرمپ نے بہت کمنٹمنٹ کے ساتھ کام کیا۔‘‘

امریکی تھینک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ماورن وائن بام

وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کا کردار بہت موثر رہا۔

’’ پاکستان نے مثبت کردار ادا کیا۔ اس نے ماحول کو خراب کرنے والا کردار ادا نہیں کیا جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ اب کی بار یہ فرق بھی واضح ہے کہ طالبان نے فیصلے خود کیے ہیں۔ ان کے فیصلے اسلام آباد کے زیراثر نہیں تھے۔‘‘

طالبان اور امریکہ کے درمیان بیس سال پر محیط جنگ کے خاتمے کے امکانات اس معاہدے کے بعد روشن ہوئے ہیں۔ لیکن ماہرین کے نزدیک ابھی کئی مشکل مقام آنا باقی ہیں۔ سینیٹر مشاہد حسین سید کہتے ہیں۔

’’ مجھے امید ہے کہ اب بین الافغان مذاکرات ہوں گے۔ خطے کے دوسرے ملک جیسے چین، روس، سینٹرل ایشیا کے ممالک حتی کہ ایران بھی اس امن عمل کی مدد کریں گے۔ میں تو کہوں کا اگر امریکہ شمالی کوریا اور افغان طالبان سے بات کر سکتا ہے تو اس کو ایران سے بھی افغانستان کے مسئلے پر بات کرنی چاہیے‘‘۔

مارون وائن بام کہتے ہین کہ یہ معاہدہ امریکہ اور طالبان کے درمیان دو طرفہ ہے لیکن افغان امن عمل کی طرف بڑھنے کے لیے ایسے ماحول کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ جس میں طالبان اور افغان حکومت مل کر بیٹھیں۔ لیکن اس سے ہٹ کر دیکھیں تو کچھ مسائل ہیں۔ اگر امریکہ افغانستان سے نکلنا شروع کر دیتا ہے، خاص طور پر افغان فورسز کو آنے والے مہینوں میں امریکہ کی طرف سے فضائی طاقت جیسی معاونت حاصل نہیں ہوتی تو اس سے توازن میں بڑی تبدیلی آئے گی جو افغان مذاکرات پر بھی اثرانداز ہو گی۔ اگر کابل حکومت کو امریکی زمینی فوج یا فضائی حملوں کی طاقت حاصل نہیں ہوتی تو یہ چیز مذاکرات کے میز پر مول تول میں اسے کمزور کر دے گی۔ بین الافغان مذاکرات پہلے ہی ناممکن حد تک ایک مشکل کام ہے کہ جس میں مستقبل قریب میں کسی مثبت نتیجے کی توقع رکھی جائے‘‘۔

پاکستان نے امریکہ کے لیے افغان امن عمل میں سہولت کار کا کردار ایسے میں ادا کیا ہے جب وہ اپنی مشرقی سرحدوں پر بھارت کے ساتھ متنازعہ کشمیر کے معاملے پر گزشتہ ایک سال سے سخت کشیدہ تعلقات رکھتا ہے اور دوسری طرف اسے معاشی مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ ان حالات میں اسلام آباد بھی کسی طرح کے تعاون کی واشنگٹن سے توقع رکھ سکتا ہے؟

پاکستان کی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے ایک ’’تھینک یو‘‘ نوٹ تو واشنگٹن سے آنا بنتا ہے۔

’’ پاکستان کو بھی واشنگٹن میں اپنے دوستوں سے تھوڑا سا ’’شکریہ‘‘ چاہیے ہو گا۔ ایک تو یہ کہ پاکستان نے جس طرح یہ سب بندوبست کیا اور سہولت کار کا کردار ادا کیا، اس کے کردار کو دل سے تسلیم کیا جائے۔ میرے خیال میں پاکستان نے 1971 کے بعد امریکہ کو سب سے بڑی سٹریٹجک فیور دی ہے جب پاکستان واشنگٹن کے پیکنگ کے ساتھ تعلقات میں پل کا کردار ادا کر رہا تھا۔ اور یہ عالمی سیاست میں بھی اہم موڑ تھا۔ امریکہ کو اتنی بڑی مدد دینے کے بعد ہم بھی تھوڑا سا ریلیف ایف اے ٹی ایف میں چاہتے ہیں۔ امریکہ یقینی بنا سکتا ہے کہ ہم گرے لسٹ سے باہر آ جائیں۔ دوسری بات یہ کہ امریکہ کشمیر کے مسئلے کو کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرانے میں سہولت کار بن سکتا ہے اور کشمیر میں موجودہ سٹیٹس کو کو ختم کرانے میں مدد دے سکتا ہے۔ تیسری فیور جس کی پاکستان توقع رکھتا ہے، وہ تجارت کے محاذ پر ہے۔ خاص طور پر آزاد تجارت کے معاہدے میں رعائتیں چاہیں گے اور آخر میں یہ کہ امریکہ اپنے دوست بھارت سے کہے کہ وہ خطے کے اندر باقی ملکوں کو ڈرانا دھمکانا بند کرے، چھوٹے ملکوں پر اجارہ داری نہیں چاہیے اور افغان امن عمل کو بھی نقصان نہ پہنچائے‘‘۔

مارون وائن بام کہتے ہیں کہ امریکہ پہلے ہی پاکستان کی طرف سے اس بار سہولت کاری کا اعتراف کر رہا ہے۔ جہاں تک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے پاکستان کے نکالے جانے کی بات ہے، وہ صرف امریکہ کے اختیار میں نہیں ہے۔ پاکستان کو عالمی برادری کو مطمئن کرنا ہو گا کہ وہاں دہشت گرد نیٹ ورکس نہیں ہیں اور ان کو مالی امداد نہیں پہنچ پا رہی۔ پاکستان نے کافی حد تک دنیا کا اعتماد حاصل کیا ہے لیکن اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

امریکی سکالر کے مطابق امریکہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ کشمیر کے تنارعے پر بھی زیادہ مدد نہیں دے سکے گا۔ صدر ٹرمپ نے اگرچہ ثالثی کی بات کچھ ماہ قبل کر دی تھی، لیکن پھر وہ تھوڑا پیجھے ہٹے کہ انہوں نے اپنے خارجہ پالیسی کے مشیروں سے بات کیے بنا بول دیا تھا۔ اب بھی مجھے نہیں لگتا کہ واشنگٹن اس بارے میں کچھ بڑھ چڑھ کر کرے گا۔ ہاں پاکستان کی معیشت کی بہتری میں مدد ضرور دے سکتا ہے جیسے آزادانہ تجارت کے معاہدوں میں سہولت دے۔ باقی کچھ مالی معاملات بہتر کرنے میں مدد دے۔