حکمت یار کی افغان سیاست میں متوقع واپسی پر مبصرین کا ملا جلا ردعمل

افغانستان کے سابق عسکریت پسند راہنما گلبدین حکمت یار (فائل فوٹو)

افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے سابق سیکرٹری اور سلامتی کے امور کے تجزیہ کار محمود شاہ کے نزدیک حکمت یار کی افغان سیاست میں واپسی سے کوئی بڑی تبدیلی رونما ہونے کا امکان نہیں۔

افغانستان کے سابق عسکریت پسند راہنما گلبدین حکمت یار کا نام اقوام متحدہ کی بین الاقوامی دہشت گردی کی فہرست سے خارج ہونے کے بعد ان کی افغان سیاست میں شمولیت کی راہ ہموار ہو گئی ہے لیکن مبصرین اس پیش رفت پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔

گزشتہ ستمبر میں افغان صدر اشرف غنی اور گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کے مابین امن معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔اس گروپ کو حکومت مخالف مسلح کارروائیاں ترک کرنے کے عوض حکومت نے حکمت یار اور ان کے دیگر ساتھیوں کے نام بین الاقوامی دہشت گردوں کی فہرست سے خارج کروانے اور حزب اسلامی کو ملکی سیاست میں کردار ادا کرنے کی اجازت دینے کا کہا تھا۔

حزب اسلامی کے ساتھ امن معاہدے پر افغان صدر اشرف غنی نے دستخط کیے

جمعہ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں سے متعلق کمیٹی نے گلبدین حکمت یار کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست سے خارج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

باور کیا جاتا ہے کہ حکمت یار مبینہ طور پر پاکستان میں کہیں روپوش ہیں تاہم حزب اسلامی کا اصرار رہا ہے کہ وہ افغانستان میں ہی موجود ہیں۔

پاکستان نے فہرست سے حکمت یار کے نام کے اخراج پر تاحال کسی طرح کا ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے لیکن امن معاہدہ طے پانے کے بعد اس نے اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کی حمایت کے اپنے عزم پر قائم ہے۔

پاکستان میں جہاں بعض مبصرین اسے افغان امن عمل کے لیے صرف ایک علامتی پیش رفت قرار دیتے ہیں تو وہیں بعض کے نزدیک یہ نہ صرف افغانستان میں قیام امن کے لیے اچھا شگون ہے بلکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں در آئی سرد مہری کو ختم کرنے میں بھی حکمت یار اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے سابق سیکرٹری اور سلامتی کے امور کے تجزیہ کار محمود شاہ کے نزدیک حکمت یار کی افغان سیاست میں واپسی سے کوئی بڑی تبدیلی رونما ہونے کا امکان نہیں لیکن افغان حکومت اس سے دیگر مخالف دھڑوں کو یہ پیغام دینے میں کامیاب رہے گی کہ وہ بات چیت کے ذریعے امن کی کوششوں میں سنجیدہ ہے۔

ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ "حزب اسلامی کی عسکری قوت ختم ہو چکی ہے یا اگر ہے بھی تو نا ہونے کے برابر، پھر گلبدین کی مخالفت بھی ہے طالبان اور شمالی اتحاد والوں کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے۔۔۔یہ علامتی چیز ہے اور حکومت یہ دکھانا چاہتی ہے کہ ہم ان کے ساتھ معاملہ کر سکتے ہیں تو طالبان کے ساتھ بھی کر سکتے ہیں۔"

تاہم سابق سینیٹر اور پشتون قوم پرست راہنما افراسیاب خٹک اس تازہ پیش رفت کو افغانستان کی سیاست اور امن کے لیے مثبت قدم قرار دیتے ہیں۔

"اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ افغانوں کے درمیان آپس میں بات چیت ہو اور وہ افغانوں کی مرضی سے اور ان کی قیادت میں ہو، میں سمجھتا ہوں کہ (حکمت یار کا) افغانستان جانا ایک اچھی پیش رفت ہو گی اور مجھے یقین ہے کہ اس سے ایک اچھی مثال قائم ہو جائے گی جو لوگ لڑائی پر مُصر ہیں ان کے لیے کہ اگر وہ امن کے لیے تیار ہوں تو امن کا راستہ موجود ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بھی بات چیت ہونی چاہیئے کیونکہ ان پڑوسی ملکوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔

"(پاکستان اور افغانستان) پڑوسی ملک ہیں ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ حکمت یار کی موجودگی سے دونوں اطراف اچھی فضا قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ پاکستانی بھی ان کو جانتے ہیں اور وہ ایک طرح سے افغانستان میں جو جھگڑے کے فریق ہیں ان پر اثر ڈال سکتے ہیں۔"

گو کہ افغان حکومت طالبان کو بھی مذاکرات کی میز پر آنے کا کہہ چکی ہے لیکن طالبان تاحال اس طرف آتے دکھائی نہیں دیتے اور انھوں نے ملک میں تشدد پر مبنی اپنی کارروائیوں کو بھی حالیہ مہیںوں میں تیز کیا ہے۔