مسلح گروہوں کے خلاف عمران خان کی حکومت کتنی سنجیدہ؟

  • شہناز نفيس

فائل

منگل کے روز غیر ملکی صحافیوں سے گفتگو کے دوران پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان پر کہ انتہا پسند گروہوں کو اب پاکستان میں پنپنے نہیں دیں گے، مختلف تجزیہ کاروں کی جانب سے مختلف رد عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

پاکستان سے ایک دفاعی تجزیہ کار ریٹائرڈ بریگیڈیر محمد صاد کہتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کا انتہا پسند گروہوں کی پاکستان میں موجودگی کے اعتراف اور انکے خلاف کارروائی کے انکے ارادے کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔

انکا کہنا تھا کہ حکومت کے حالیہ اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ عمران خان کی حکومت انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کے سلسلے میں سنجیدہ ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی وزیر اعظم اس مسئلے کو مختلف زاویے سے دیکھ رہے ہیں، کیونکہ انکی نظر میں پاکستان میں سرمایہ کاری لانے اور سیاحت کو باعث کشش بنانے کے لئے انتہا پسند تنظیموں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

حکمران جماعت، پی ٹی آئی کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات، افتخار چودھری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت نے اس ضمن میں نہ صرف انتہا پسند تنظیموں کے لوگوں کو حراست میں لیا ہے اور بے شمار نامعلوم بینک اکاؤنٹس بند ہیں، بلکہ ہزاروں کی تعداد میں مدرسوں کو قومی دھارے میں لانے اور انتہا پسند سوچ رکھنے والے بے شمار افراد کی بحالی پر بھی کام ہو رہا ہے۔

تاہم، ایک امریکی تجزیہ کار، ڈاکٹر طاہر روہیل وزیر اعظم عمران خان کے ان دعووں کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں بھی اسی طرح کے بیانات پاکستان کے گزشتہ حکمرانوں کی جانب سے آچکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ملکی معاشرے کو ایسے عناصر سے پاک کرنے کے وعدے کبھی پورے نہیں کئے اور اسی طرح سابق صدر پرویز مشرف نے بھی پاکستان کی سرزمین کو ہمسایہ ممالک کے خلاف استعمال نہ کرنے کا وعدہ کبھی پورا نہیں کیا‘‘۔

ایک امریکی تھنک ٹینک، ولسن سینٹر سے منسلک مائیکل کوگلمن اپنے ایک ٹویٹ میں لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان کے وزیر اعظم کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان کو معاشی بدحالی کا سامنا ہے اور حالات پر قابو پانے کے لئے انکے ملک کو عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کی ضرورت ہے‘‘۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک میں انتہا پسند گروہوں سے نمٹنے کی عمران خان کی سوچ ہوگی۔ لیکن، کیا انکے پاس اپنی اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اختیارات بھی ہیں؟ بقول تجزیہ کار ’’یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا‘‘۔