مزار پر خودکش دھماکوں میں ہلاکتوں کی تعداد 50

مزار پر خودکش دھماکوں میں ہلاکتوں کی تعداد 50

آر پی او ڈیرہ غاز ی خان احمد مبارک کا کہنا ہے کہ دربار پر حملے کے لیے چار لوگ 29 مارچ کو علاقے میں آکر مدینہ ہوٹل میں ٹھہرے اور منصوبہ بندی کے بعد وہ اتوار کو حملے کے لیے ’سخی سرور دربار ‘ پہنچے۔ اُنھوں نے بتایا کہ زیرحراست خودکش بمبار سے معلوم ہوا ہے کہ وہ کئی گنا زیادہ لوگوں کو مارنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن سکیورٹی کے سخت انتظامات کی وجہ سے وہ دربار کے اندار داخل نہیں ہو سکے۔

صوبہ پنجاب کے جنوبی ضلع ڈیرہ غازی خان میں ’ سخی سرور ‘ دربار کے احاطے میں ایک روز قبل ہونے والے خودکش حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد لگ بھگ 50 ہو گئی ہے جب کہ درجنوں زخمیوں میں سے اب بھی بیشتر ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔

پولیس کے علاقائی سربراہ (ریجنل پولیس آفیسر) احمد مبار ک نے ایک نجی نیوز چینل سے گفتگو میں بتایا کہ زخمی حالت میں گرفتار کیے جانے والے ایک خودکش حملہ آور سے ابتدائی تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ اُس کا تعلق قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے ہے جب کہ زائرین کی سبیل پر خود کو بارودی مواد سے تباہ کرنے والا چھٹی جماعت کے طالب علم اسماعیل عرف فدائی کا تعلق بھی اسی قبائلی علاقے سے تھا۔

اُنھوں نے بتایا کہ شمالی وزیرستان کے علاقے میسوری کے رہائشی یہ دونوں نوجوان رضوان پبلک نامی اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ احمد مبارک نے بتایا کہ پولیس کی تحویل میں موجود بمبار 10ویں جماعت کا طالب علم تھا اور اُن کے بقول اس کا کہنا ہے کہ ”وہ جو مر گیا ہے(پہلا حملہ کرنے والا) جنت میں چلا گیا ہے اورمیں پیچھے رہ گیا ہوں۔ میری بھی خواہش تھی کہ میں جنت میں جاتا اور مجھے افسوس ہے اس بات کا ۔ اگر مجھے اللہ نے اب زندگی دے دی ہے تو جتنی دفعہ بھی مجھے دوبارہ موقع ملے گا میں یہ ہی کام کروں گا‘‘۔

13 ویں صدی کے صوفی بزرگ سید احمد سلطان المعروف ’سخی سرور‘ کے سالانہ عرس کی تقریب کے دوران اتوار کو یکے بعد دیگرے دو خودکش بم دھماکوں ہوئے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ایک اور بمبار نے بھی جسم سے بندھے بارود میں دھماکا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہا۔

آر پی او ڈیرہ غاز ی خان احمد مبارک کا کہنا ہے کہ دربار پر حملے کے لیے چار لوگ 29 مارچ کو علاقے میں آکر مدینہ ہوٹل میں ٹھہرے اور منصوبہ بندی کے بعد وہ اتوار کو حملے کے لیے ’سخی سرور دربار ‘ پہنچے۔ اُنھوں نے بتایا کہ زیرحراست خودکش بمبار سے معلوم ہوا ہے کہ وہ کئی گنا زیادہ لوگوں کو مارنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن سکیورٹی کے سخت انتظامات کی وجہ سے وہ دربار کے اندار داخل نہیں ہو سکے۔

احمد مبارک کا کہنا ہے کہ زیرحراست حملہ آور سے پتہ چلا کہ اُنھیں دھماکے کرنے کے لیے سات ماہ کی تربیت فراہم کی گئی تھی۔

کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے یہ خودکش حملے کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ اُن کے ٹھکانوں پر فوج کے حملوں کا ردعمل ہے۔

پاکستان میں 2007ء کے بعد سے صوفیا کے چھ درباروں کا نشانہ بنایا چکا ہے اور ان میں لاہور میں داتا دربار اور پاکپتن میں بابا فرید کے علاوہ کراچی میں عبداللہ شاہ غازی اور پشاور کے قریب رحمن بابا کے مزار شامل ہیں۔


سنی اتحاد کونسل کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ فضل کریم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حالیہ خودکش حملوں سمیت مزارات کو نشانہ بنانے کی شدید مذمت کی۔ اُنھوں نے کہا کہ 17 اپریل کو لاہور میں دہشت گردی کے خلاف ’استحکام پاکستان‘ کانفرنس منعقد کی جائے گی جس کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈال کر اُسے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور کرنا ہے۔