نیب چیئرمین تقرری پر حکومت کے حزب اختلاف سے رابطے

حکومت کی طرف سے سابق جسٹس رحمت جعفری اور خواجہ ظہیر جبکہ حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ کے سابق جج رانا بھگوان داس اور سردار رضا کے نام تجویز کیے تھے۔
حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان احتساب کے قومی ادارے (نیب) کے سربراہ کے نام پر عدم اتفاق کے باعث تقرری گزشتہ تین ماہ سے تعلطل کا شکار ہے اور اسی دوران ادارے کی طرف سے نا تو کسی قسم کی تحقیقات شروع کی گئی اور نا ہی عدالت کو کوئی مقدمہ بھیجا جا سکا۔

اس بنیاد پر عدالت عظمیٰ کی طرف سے سخت تنبیہہ کے بعد نواز شریف حکومت کے مرکزی ترجمان کے مطابق وزیراعظم نے وفاقی وزیر خزانہ کو حزب اختلاف سے رابطہ کرکے جلد معاملہ طے کرنے کی ہدایت کی ہے۔

اس سے پہلے حکومت کی طرف سے سابق جسٹس رحمت جعفری اور خواجہ ظہیر جبکہ حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ کے سابق جج رانا بھگوان داس اور سردار رضا کے نام تجویز کیے تھے۔

پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری سردار لطیف کھوسہ کا وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو کے سربراہ کی تقرری سے متعلق عدالت عظمیٰ کے فیصلوں نے بھی معاملے کو پیچیدہ بنایا ہے۔

’’قانون میں لفظ ہے مشاورت۔ اب صدر حزب اختلاف یا حکومت میں سے کسی کے ساتھ اتفاق رائے کے بعد تقرری کردے۔ مگر اب سیریم کورٹ نے کہہ دیا ہے کہ مشاورت نتیجہ خیز ہو تو وہ خود جواب دیں۔ میں تو نہیں دے سکتا۔‘‘

یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت میں اس وقت کے قائد حزب اختلاف چوہدری نثار نے سپریم کورٹ میں نیب چیئرمین کی تقرری کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس تقرری میں ان کی مرضی شامل نہیں جس پر عدالت نے دو مرتبہ ان تقرریوں کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

پی پی پی کے رہنما نے حکومت پر اس تقرری کے عمل میں تاخیر کا الزام لگاتے ہوئے کہا ’’ہم نے تو سابق جسٹس بھگوان داس جیسے شخص کا نام تجویز کیا اب اگر ان کی طرف سے کوئی مثبت اشارہ نا آئے تو تعطل تو ہوگا۔‘‘

رانا بھگوان داس ان ججوں میں شامل تھے جنھیں سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے 2007ء میں ملک میں ایمرجنسی لگا کر نظر بند کردیا تھا۔

لطیف کھوسہ نے چیئرمین نیب کی تقرری کے معاملے پر اتفاق رائے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا مگر ان کی جماعت کے موقف میں لچک پر ان کا کہنا تھا کہ ’’کبھی ان کو بھی کہہ دیا کیجیے۔ ہم ہی سے کیوں ہمیشہ توقع کرتے ہیں کہ پسپائی ہمیشہ ہمیں ہی ہو۔ ہم ہی لچک دکھائیں۔ کبھی وزیراعظم سے یہ کہہ دیں۔‘‘

حالیہ سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کی تقرری میں تاخیر سے بظاہر لگتا ہے کہ بد عنوانی کا خاتمہ موجودہ حکومت کے ایجنڈے کا حصہ نہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ اگر حکومت جلد تقرری نہیں کرتی تو اس کے نتائج کے لیے تیار ہو جائے۔

عدالت اس سے پہلے رائے دے چکی ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف میں کسی نام پر اتفاق نا ہونے کی صورت میں چیف جسٹس بطور ثالث کردار کر سکتے ہیں۔ کئی دیگر قانون دانوں کی رائے کے برعکس، قانونی ماہر ایس ایم ظفر اس تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

’’ان کی رائے کو آپ فیصلہ ہی بنا لیں اگر اتفاق نہیں ہوتا تو کیا حرج ہے؟ کہہ دیں فیصلہ وہی ہوگا جو رائے آئے گی۔ ورنہ آئین میں ترمیم میں تو بہت وقت لگ جائے گا۔‘‘

وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا تھا کہ حکومت نیب چیئرمین کی تقرری سے متعلق عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر مکمل عمل کرے گی۔ تاہم سپریم کورٹ کی طرف سے پہلے ہی اس مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی ہے۔