پاکستان میں کسی دہشت گرد تنظیم کا منظم وجود نہیں: دفترِ خارجہ

وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کا کہنا ہے کہ شدت پسند تنظیمیں افغانستان کے اُن علاقوں میں موجود ہیں جہاں کابل حکومت کی عمل داری نہیں ہے۔

پاکستان نے ایک مرتبہ پھر واضح کیا ہے کہ ملک میں تمام دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق آپریشن کیا گیا ہے اور افغان طالبان کا دھڑا حقانی نیٹ ورک کا وجود افغانستان ہی میں ہے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان، افغان طالبان، داعش، جماعت الاحرار، القاعدہ کی باقیات اور دیگر شدت پسند تنظیمیں افغانستان کے اُن علاقوں میں موجود ہیں جہاں کابل حکومت کی عمل داری نہیں ہے۔

جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں جب ترجمان نفیس ذکریا سے امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سربراہ جان مکین سے منسوب اُس بیان کے بارے میں پوچھا گیا جس میں سینیٹر مکین نے کہا تھا کہ انہوں نے پاکستان پر واضح کردیا ہے کہ واشنگٹن اسلام آباد سے توقع کرتا ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیموں خاص طور پر حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی میں تعاون کرے گا۔

اس سوال پر نفیس ذکریا کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ کی پالیسی ہے کہ میڈیا رپورٹس پر ردعمل کا اظہار نہیں کیا جاتا۔

سینیٹر جان مکین کی قیادت میں پانچ رکنی وفد نے رواں ہفتے پاکستان کا دورہ مکمل کرنے کے بعد کابل میں افغان قیادت سے بھی ملاقات کی تھی۔

پاکستان میں قیام کے دوران سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقات کے علاوہ امریکی وفد نے افغان سرحد سے ملحق پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کا دورہ بھی کیا تھا جہاں فوج کی طرف سے اُنھیں دہشت گردوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی تھی۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے کہا کہ سینیٹر مکین کی قیادت میں آنے والے امریکہ وفد سے ملاقاتیں مثبت اور دوستانہ ماحول میں ہوئیں جس میں افغانستان سے متعلق اُمور پر بھی بات چیت کی گئی۔

اُن کا کہنا تھا کہ حالیہ مہینوں میں حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے بہت سے کمانڈر افغانستان ہی میں مارے گئے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک افغانستان میں ہی سرگرم ہے۔

افغان حکومت کا بھی الزام رہا ہے کہ حقانی نیٹ ورک اور دیگر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں پاکستان میں اب بھی موجود ہیں جہاں سے وہ حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

تاہم پاکستان ان الزام کی تردید کرتا ہوئے یہ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ ملک میں کامیاب فوجی کارروائیوں کے بعد دہشت گرد سرحد پار افغانستان فرار ہو گئے ہیں جہاں سے وہ پاکستانی حدود میں حملے کرتے ہیں۔

پاکستان نے افغانستان سے ملحق اپنی لگ بھگ 2600 کلومیٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کا کام بھی شروع کر رکھا ہے تاکہ دہشت گردوں کی سرحد آر پار آمد و رفت روکی جا سکے۔