تحقیقات کے ضابطہ کار پر پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے پر اتفاق

وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید (فائل فوٹو)

عمران خان نے ایک بار پھر اپنے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کو خود کو احتساب کے لیے پیش کرنا چاہیے بصورت دیگر ان کی جماعت سڑکوں پر احتجاج کرے گی۔

پاکستان میں حکومت اور حزب مخالف بدعنوانی سے متعلق تحقیقات کے ضابطہ کار وضع کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے پر متفق ہو گئے ہیں جس کے بعد توقع ہے کہ ایک ماہ سے جاری سیاسی کشیدگی میں کسی قدر کمی واقع ہو سکے گی۔

یہ معاملہ گزشتہ ماہ پاناما پیپرز میں وزیراعظم نوازشریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کا ذکر آنے کے بعد شروع ہوا جس پر حکومت کو حزب مخالف کی طرف سے کڑی تنقید اور وزیراعظم سے مستعفی ہونےکے مطالبات کا سامنا کرنا پڑا۔

معاملے کی تحقیقات کے ضابطہ کار پر فریقین کے درمیان اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں سیاسی پارہ تیزی سے چڑھتا رہا اور ایوان اور پارلیمان کے باہر بھی حکومت اور حزب مخالف کی ایک دوسرے پر دشنام ترازیوں کا سلسلہ طول پکڑنے لگا۔

وزیراعظم نے پیر کو قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران اسپیکر کو تجویز دی تھی کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ضابطہ کار وضع کرنے کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔

بدھ کو حکومت اور حزب مخالف کے اراکین نے اسپیکر سے ملاقات میں ایک بارہ رکنی کمیٹی بنانے پر اتفاق کیا جو دو ہفتوں میں تحقیقات کے طریقہ کار وضع کر کے ایوان میں پیش کرے گی۔

وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے اس بارے میں ذرائع ابلاغ کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس میں چھ ارکان حکومت اور اس کی حلیف جماعتوں سے ہوں گے اور چھ ارکان حزب مخالف سے شامل کیے جائیں گے۔

"تمام آف شور کمپنیاں جن کا ذکر ہوا ہے اسی طریقے سے جو قرضے معاف کروائے گئے ہیں ان پر بھی کمیٹی نے تجویز دینی ہے کہ نظام وضع کیا جائے کہ قرضے معاف کروانا کس حد تک جائز تھا اور کس حد تک ناجائز۔۔۔ کک بیکس کا معاملہ بھی اس میں شامل ہے، عمومی طور پر بدعنوانی سے متعلقہ جو بڑے بڑے اشارے ہیں وہ تقریباً اس میں سمو دیے گئے ہیں۔"

اس سے قبل بدھ کو قومی اسمبلی میں حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے دو روز قبل وزیراعظم کی طرف سے ایوان میں کی گئی تقریر اور اپنے خاندان کے اثاثوں سے متعلق فراہم کردہ تفصیلات کو ان کے بقول طوطا مینا کی کہانی قرار دیتے ہوئے ایک بار پھر تنقید کا نشانہ بنایا۔

عمران خان (فائل فوٹو)

انھوں نے ایک بار پھر اپنے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کے پاس اس منصب پر رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے اور انھیں خود کو احتساب کے لیے پیش کرنا چاہیے بصورت دیگر ان کی جماعت سڑکوں پر احتجاج کرے گی۔

اس پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے حکومتی موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج کی سیاست کی بجائے پارلیمان اور جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔

"جمہوریت ابھی تناور درخت نہیں بنی اس کا پودا پھل پھول رہا ہے۔۔۔اقتدار کی ہوس اور اپنے ذاتی مقاصد اور اغراض ہمیں اتنی دور نہ لے جائیں کہ اس پودے پر پھر خزاں آجائے۔"

2013ء میں اقتدار میں آنے والی مسلم لیگ ن کو خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے مختلف الزامات کا سامنا رہا ہے اور حکومتی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ کسی کو بھی احتجاج کی آڑ میں ملکی ترقی و خوشحالی میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

تاہم تحریک انصاف کا اصرار ہے کہ بدعنوانی کے خاتمے کے بغیر ملک کسی صورت دیرپا ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔