مفاہمتی عمل میں’بیرونی مداخلت‘ افغانستان کےلیے نقصان دہ

افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے ایک 25 رکنی وفد پاکستانی حکام سے بات چیت کرتے ہوئے

پروفیسر برہان الدین ربانی کی قیادت میں افغانستان کی’اعلیٰ امن کونسل‘ کے ایک 25 رکنی وفد نے رواں ہفتے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا جہاں پاکستانی سیاسی اور فوجی رہنماؤں سے بات چیت میں دونوں ملکوں نے ایک دو طرفہ کمیشن کے قیام اور جرگہ اجلاس منعقد کرنے پر اتفاق کیا۔

بھارت نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن ومفاہمت کی کوششوں کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اس عمل کی قیادت افغان خود کریں۔

اتوار کو کابل میں اپنے افغان ہم منصب ظلمے رسول کے ساتھ بات چیت کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے کہا کہ ” مصالحتی عمل میں کسی بھی طرح کی بیرونی مداخلت ان کوششوں کی کامیابی ، افغانستان کے جمہوری مستقبل، خوشحالی،کثرت پسندی اور استحکام کے لیے نقصان دہ ہوگی۔“

اُنھوں نے کسی ملک کا نام نہیں لیا لیکن بھارتی وزیر خارجہ کا اشارہ بظاہر پاکستان کی طرف تھا کیونکہ پاکستانی قائدین بارہا اس موقف کا اظہار کرچکے ہیں کہ افغانستان میں قیام امن اور سیاسی مفاہمت کی بین الاقوامی کوششیں اسلام آباد کی شمولیت کے بغیر کامیا ب نہیں ہوں گی۔ تاہم پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ مفاہمتی عمل کی قیادت کرنے کا خواہش مند نہیں۔ افغان حکام اور امریکی عہدے داروں کا ماننا ہے کہ طالبان کے بعض اہم کمانڈرپاکستان میں روپوش ہیں۔

پروفیسر برہان الدین ربانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے بات چیت کرتے ہوئے

پروفیسر برہان الدین ربانی کی قیادت میں افغانستان کی’اعلیٰ امن کونسل‘ کے ایک 25 رکنی وفد نے رواں ہفتے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا جہاں پاکستانی سیاسی اور فوجی رہنماؤں سے بات چیت میں دونوں ملکوں نے ایک دو طرفہ کمیشن کے قیام اور جرگہ اجلاس منعقد کرنے پر اتفاق کیا۔

ملاقاتوں کے بعد سابق افغان صدر برہان الدین ربانی نے کہا ہے کہ پاکستانی قائدین کے ساتھ بات چیت مفید اور کامیاب رہی جبکہ پاکستانی حکام نے بھی کمیشن کے قیام کو ایک بڑی پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے افغانستان میں امن و استحکام کے قیام کی کوششوں میں پاکستان کے کردار کی اہمیت کا اعتراف کیا گیا ہے۔

افغان امن کونسل ملک میں طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ امن بات چیت کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے قائم کی گئی ہے جو ان کوششوں کے سلسلے میں افغانستان کے ہمسایہ ملکوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے دورے بھی کر رہی ہے۔

بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا


گذشتہ سال فروری میں افغان دارالحکومت میں غیر ملکیوں پر طالبان کے حملے میں نو بھارتی شہری بھی ہلاک ہوگئے تھے جبکہ 2008ء میں کابل میں بھارت کے سفارت خانے پر ایک طاقتور خودکش حملے میں41 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

کرشنا کا کہنا تھا کہ افغانستان میں کام کرنے والے بھارتی شہریوں کو سلامتی کے سنجیدہ خطرات کا سامنا ہے لیکن جب تک افغان حکومت چاہے گی بھارت اس ملک میں رہے گا اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے اپنی معاونت جاری رکھے گا۔

بھارتی وزیر خارجہ نے افغان صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کی اوراُن کے دورے کے دوران بھارت نے خشک سالی کا شکار افغانستان کوایک لاکھ ٹن گندم فراہم کرنے کے علاوہ نئی دہلی کی جواہر لال یونیورسٹی میں پشتو اور دری زبانوں میں کورس شروع کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔

بھارت نے افغانستان میں تعمیر نو کے منصوبوں کے لیے ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر امداد دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔

افغانستان میں اس وقت لگ بھگ چار ہزار بھارتی شہری سڑکوں کی تعمیر، بجلی کے تار بچھانے اور دیگر تعمیری منصوبو ں کے ساتھ منسلک ہیں جبکہ بھارت کابل میں افغانستان کی پارلیمان کی نئی عمارت بھی تعمیر کرنے میں افغان حکومت کی مدد کررہا ہے۔

باور کیا جاتا ہے کہ افغانستان کو امداد اور تعمیراتی منصوبوں کے لیے امداد دینے والے علاقائی ملکوں میں بھارت سرفہرست ہے۔