خیبر ایجنسی: نقل مکانی کرنے والے افراد کی واپسی کا چوتھا مرحلہ

فائل فوٹو

وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے ’فاٹا‘ میں قدرتی آفات سے نمنٹے کے ادارے کے حکام کا کہنا ہے کہ اس مرحلے میں تحصیل باڑہ سے تعلق رکھنے والے 16,000 خاندانوں کی اپنے گھروں کو واپسی ہو گی اور یہ مرحلہ آئندہ 25 روز میں مکمل ہو گا۔

پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں گزشتہ سال دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد وہاں سے نقل مکانی کرنے والوں کی اپنے گھروں کو واپسی کا چوتھا مرحلہ پیر کو شروع ہوا۔

وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے ’فاٹا‘ میں قدرتی آفات سے نمنٹے کے ادارے کے حکام کا کہنا ہے کہ اس مرحلے میں تحصیل باڑہ سے تعلق رکھنے والے 16,000 خاندانوں کی اپنے گھروں کو واپسی ہو گی اور یہ مرحلہ آئندہ 25 روز میں مکمل ہو گا۔

پاکستانی فوج نے صوبہ خیبر پختونخواہ سے ملحقہ قبائلی علاقے خیبر ایجنیسی میں گزشتہ سال اکتوبر میں ’خیبر ون‘ کے نام سے فوجی آپریشن شروع کیا تھا جس کی وجہ سے لگ بھگ 80,000 خاندانوں کو نقل مکانی کرنی پڑی۔ ان میں زیادہ تر افراد اپنے رشتے داروں یا کرائے کے مکانوں میں مقیم ہوئے۔

خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کی اپنے گھروں کو واپسی کا سلسلہ اس سال مارچ میں شروع ہوا۔ حکام کے مطابق اب تک تین مراحل مکمل ہو چکے ہیں جن میں تقریباً 41,000 خاندان اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں۔

’فاٹا‘ میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے کے عہدیدار عادل ظہور نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پیر کو شروع ہونے والے مرحلے کے دوران تحصیل باڑہ کے ملک دین خیل قبیلے سے تعلق رکھنے والے خاندان اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔

’’حکومت پاکستان کی طرف سے ٹرانسپورٹ الاؤنس کی مد میں 10,000 روپے جب کہ ہر خاندان کو 25،000 نقد دیے جائیں گے جب کہ اس کے علاوہ عالمی ادارے خوراک کی طرف سے واپس جانے والے ہر خاندان کو ہر ماہ راشن بھی فراہم کیا جائے گا، راشن کی فراہمی کا عمل چھ ماہ تک جاری رہے گا۔‘‘

عادل ظہور کا کہنا ہے کہ خیبر ایجسنی کے باقی خاندانوں کی واپسی کا عمل آئندہ تین ماہ میں مکمل ہونے کی توقع ہے۔

شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کی واپسی کا عمل بھی مارچ میں شروع ہوا تھا، تاہم یہ واپسی کا عمل سست روی کا شکار ہے۔

قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں گزشتہ سال جون میں فوج نے مقامی اور غیر مقامی عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب شروع کیا تھا، جس کی وجہ سے وہاں سے لگ بھگ چھ لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔