اسکول نہ جانے والے بچے: پاکستان کا ایک خاموش قومی بحران

پاکستان میں لڑکیوں میں ناخواندگی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ دیہی علاقوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر کئی والدین اپنی بچیوں کو اسکول نہیں بھیجتے۔

پاکستان اس وقت ایک ایسے بحران سےگزر رہا ہے جسے ماہرین ایک خاموش قومی بحران کا نام دے رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں وائس آف امریکہ کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کی وزارت تعلیم کے جوائنٹ سیکرٹری محمد رفیق طاہر نے بتایا کہ آئین کے تحت پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں کی مفت اور لازمی تعلیم حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن اس وقت پانچ سے سولہ سال کی عمر کے 22.48 ملین سے زیادہ بچے اسکول نہیں جا رہے جن میں سے 56 لاکھ بچوں کی عمریں 5 سے 9 سال کے درمیان ہیں۔

بچوں میں نئی چیزوں کے بارے میں جاننے اور پڑھنے کا جذبہ موجود ہوتا ہے۔

رفیق طاہر نے اس مسئلے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ بہت سے والدین غربت کی وجہ سے بچوں کو اسکول نہیں بھیج سکتے اور وہ انہیں گھر کا خرچ چلانے کے لیے محنت مزوری پر لگا دیتے ہیں۔ جب کہ کچھ ناخواندہ والدین تعلیم کی اہمیت سے بے خبری اور کچھ اپنی ثقافتی روایات کے پیش نظر، خاص طور پر اپنی بچیوں کو اسکول نہیں بھیجتے, اور اس سے بھی اہم بات ہہ ہے کہ بہت سے اس لیے اسکول نہیں جا پاتے کیونکہ ان کے گھروں کے قریب کوئی اسکول نہیں ہوتا۔

پاکستان کے دیہی علاقے کا ایک اسکول

الائٹ پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر طارق چیمہ نے کہا کہ بچوں کا اسکول نہ جانا ایک خاموش قومی بحران ہے اور ایک ایسے ملک میں جہاں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے یہ ایک انتہائی سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔

ایک دیہی اسکول میں ٹیچر بچوں کو پڑھا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم الائٹ نے قطر، جاپان اور پاکستان کی حکومت کے ساتھ مل کر ملک کے دس لاکھ آؤٹ آف اسکول بچوں کو اسکولوں میں داخل کرانے کا ملک کا سب سے بڑا پروگرام “ایجوکیٹنگ ون ملین آؤٹ آف اسکول چلڈرن “ شروع کیا ہے۔ اس تین سالہ پروگرام میں وفاقی حکومت، ترقیاتی ادارے، غیر سرکاری ادارے اور بین الاقوامی ڈونرز مل کر کام کر رہے ہیں اور اب تک پانچ لاکھ بچوں کو اسکولوں میں پہنچایا جا چکا ہے۔

ایک اور اسکول

انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اسلامک ڈیولپمنٹ بینک نے اس کی فنڈنگ بڑھانے کی بات کی ہے، جب کہ ورلڈ بینک کے ساتھ بھی اس بارے میں بات چل رہی ہے۔

لڑکیوں کا ایک اسکول

پاکستان الائینز آف گرلز ایجوکیشن یا پیج کی ایکزیکٹیو ڈائریکٹر فجر ربیعہ نے بتایا کہ ان کا ادارہ الائیٹ پاکستان کے ون ملین آؤٹ آف اسکول بچوں کے پروگرام کا حصہ ہے، جب کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد بچیوں کی تعلیم کے لیے مالی معاونت اور وسائل فراہم کر رہی ہے۔

اور جب سوال کا جواب آتا ہو تو۔۔۔۔

پنجاب گورنمنٹ کے اسکولوں کے ایک کنسلٹنٹ اور تعلمی امور کے ماہر اسامہ محمود کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے 22 ڈسٹرکٹس کے ایسے علاقوں میں جہاں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہے، ” انصاف آفٹر اسکول” پروگرام شروع کیا ہے جس میں اب تک 25000 بچے داخل ہو چکے ہیں۔

تفریق کا یہ سوال بچوں کو آسان لگ رہا ہے۔

اس کے علاوہ حکومت نے موبائل اسکولوں اور ہائبرڈ ایجوکیشن کے پروگرام بھی شروع کیے ہیں جن میں ایسے بچوں کو تین سے چار ماہ تک پچھلے کورسز تیزی سے پڑھا کر انہیں اسکول میں داخل کرا دیا جاتا ہے۔

پڑھائی میں انہماک۔۔۔۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت بچیوں کے لیے ایک خصوصی پروگرام ”زیور تعلیم” بھی چلا رہی ہے جس میں انہیں تعلیم کے لیے مالی مدد فراہم کی جاتی ہے۔

دیہی علاقے میں بچیوں کا ایک کلاس روم

معاون فاؤنڈیشن اسلام آباد کے فاؤنڈر اور سابق نیول چیف آف اسٹاف آصف سندھیلہ نے کہا کہ ان کا ادارہ پاکستان کے سرکاری اسکولوں کو ایڈاپٹ کر کے وہاں کلاس رومز، فرنیچر، یا دوسری سہولیات بہتر بنا کر اور اساتذہ کو تربیت فراہم کر کے طالب علموں کو بہتر تعلیم اور تعلیمی ماحول کی فراہمی پر کام کر رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو اسکولوں میں آنے کی ترغیب ملے۔

ایک اور کلاس روم

فیڈرل منسٹری آف ایجوکیشن کے جوائنٹ سیکرٹری محمد رفیق طاہر نے بتایا کہ ان کی حکومت نے تعلیمی پالیسی کے ساتھ ساتھ آؤٹ آف اسکول بچوں کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر بجٹ مختص کرنے اور ان کے لیے سہولیات کی فراہمی کو بھی ایک ترجیح بنا لیا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس مسئلے کو نئے اختراعی طریقوں سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔

دیہی علاقوں میں کئی اسکول ایسے بھی ہیں جو کھلے آسمان تلے لگتے ہیں۔

بچوں کی تعلیم کے پروگراموں پر باتیں تو بہت کی جاتیں ہیں اور کاغذ پر اس کے دلکش خاکے بھی پیش کیے جاتے ہیں، لیکن سات عشرے گزر جانے کے باوجود عملی طور پر کوئی نمایاں کامیابی دکھائی نہیں دے رہی اور خواندگی کے تناسب سے پاکستان اب بھی اپنے ہی خطے کے زیادہ تر ملکوں سے پیچھے ہے۔ اس خلیج کو پاٹںے کے لیے سنجیدہ اور ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔