افغانستان الزام تراشی سے گریز کرے، پاکستان

دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم

پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے کابل میں اس دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان کو اس میں ملوث کرنے کی کوششیں پریشان کن ہیں۔
پاکستان نے پڑوسی ملک افغانستان کے دارالحکومت میں گزشتہ ہفتے ایک ہوٹل پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں اسے ملوث کرنے کی کوششوں کو بے سود قرار دیتے ہوئے ایسے رجحان کو ختم کرنے پر زور دیا ہے۔

گزشتہ جمعرات کو کابل میں طالبان جنگجووں نے ایک پرتعیش ہوٹل میں گھس کر فائرنگ کر کے غیر ملکیوں سمیت نو افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

بعد ازاں افغان حکام کی طرف سے اس حملے میں پاکستان کا نام لیے بغیر کہا گیا تھا کہ اس میں غیر ملکی خفیہ ایجنسی ملوث ہے۔ مزید برآں بیان کے مطابق حملے سے قبل ایک پاکستانی سفارتکار کو ہوٹل کی راہداری میں تصاویر لیتے ہوئے بھی دیکھا گیا تھا۔

تاہم پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے کابل میں اس دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان کو اس میں ملوث کرنے کی کوششیں پریشان کن ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں کسی حملے کے بعد پاکستان پر فوری الزام عائد کرنے کا رجحان سودمند نہیں اور اس کو بند ہونا چاہیئے۔


انھوں نے افغان وزارت داخلہ کی طرف سے پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان کے درمیان جاری مذاکراتی عمل پر تشویش کو حیرت انگیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی اعلیٰ قیادت اس عمل کی بارہا حمایت کا اظہار کر چکی ہے۔

پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمن نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایک دوسرے پر بے بنیاد الزامات لگانے کی روش کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

" پاکستان اور ہمسایہ ممالک کے درمیان جو غلط فہمیاں پائی جاتی تھیں ان کے حقیقی جواز بھی تھے اور کچھ غلط فہمیاں پیدا بھی کی گئیں تو ہمارے قائدین کا جو آپس میں تعلق ہے یا پھر قانون سازوں کا تبادلہ ہے اس میں ہمیں ان غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا چاہیئے اور اگر ایسا کوئی رجحان ہے تو اس پر توجہ دینی چاہیئے، صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کی عادت ڈالنی چاہیئے۔"

کابل کی طرف سے ماضی میں بھی اسلام آباد پر یہ الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ وہ افغانستان میں غیر ریاستی عناصر کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اپنی سرزمین کو افغانستان کے خلاف استعمال ہونے سے نہیں روک رہا۔

لیکن پاکستان ایسے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ ایک پرامن اور مستحکم افغانستان خود اس کے اپنے مفاد میں ہے اور وہ افغانستان میں مصالحتی کوششوں کے لیے اپنی ہر ممکن حمایت فراہم کرتا رہےگا۔

مبصرین افغانستان کے طرف سے ان حالیہ دشنام ترازیوں کو دونوں ملکوں میں اعتماد کے فقدان کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔

تجزیہ نگار حسن عسکری کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا۔

"پاکستان اور افغانستان کا دہشت گردی کے خلاف تو کوئی تعاون ہوتا نہیں تو اس طرح کے الزامات لگتے رہتے ہیں اور جب تک یہ تعاون نہیں کریں گے اور تھوڑا بہت اعتماد ایک دوسرے پر نہیں کریں گے تو معاملات ایسے ہی چلتے رہیں گے۔"

افغانستان میں آئندہ ماہ صدارتی انتخاب ہونے جا رہے ہیں جب کہ رواں سال کے اواخر تک تمام غیر ملکی افواج بھی اپنے وطن واپس چلی جائیں گی۔ بین الاقوامی برادری بشمول امریکہ اس تناظر میں افغانستان میں پائیدار امن و استحکام کے لیے پاکستان کے کردار کو کلیدی قرار دے چکا ہے۔