ممبئی حملہ کیس: بھارتی گواہوں کی دستیابی کے لیے حکام سے جواب طلب

دہشت گردی کا نشانہ بننے والا ممبئی کا تاج ہوٹل (فائل فوٹو)

پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے بھارتی شہر ممبئی میں دس سال قبل ہونے والے دہشت گرد حملوں سے متعلق زیرسماعت مقدمے میں استغاثہ کے آخری دو گواہوں کو طلب کرتے ہوئے عہدیداروں کو ہدایت کی ہے کہ 27 بھارتی گواہوں کی دستیابی کے بارے میں عدالت کو آگاہ کیا جائے تاکہ مقدمے کی کارروائی کو مکمل کیا جا سکے۔

ممبئی حملہ کیس سے متعلق یہ مقدمہ 2009ء سے چل رہا ہے۔ لیکن بدھ کو اس کی سماعت ایک ایسے وقت شروع ہوئی جب گزشتہ ہفتے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے ایک اخباری انٹرویو میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ یہ مقدمہ ابھی تک مکمل کیوں نہیں ہوسکا۔ بعدازاں صحافیوں سے گفتگو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ اس میں تاخیر بھارت کی طرف سے شواہد کی فراہمی میں مبینہ طور پر تعاون نہ کرنے کی وجہ سے ہو رہی ہے تو نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس بھی کافی شواہد ہیں۔

بدھ کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے وفاقی تفتیشی ادارے 'ایف آئی اے' کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا اور ایک دوسرے عہدیدار زاہد اختر کو پیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کروانے کی ہدایت کی۔

عدالت نے کہا کہ ایسے میں جب مقدمہ اپنے آخری مراحل میں ہے ایف آئی اے کے ڈی جی اور خارجہ و داخلہ وزارتوں کے سیکرٹریز کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ عدالت کو 27 گواہوں کی دستیابی کی بابت ٹھوس اور حتمی جواب دیں تاکہ اس کارروائی کو مکمل کیا جا سکے۔

بھارت کا الزام ہے کہ ممبئی حملوں کی منسوبہ بندی پاکستان میں موجود کالعدم تنظیم لشکر طیبہ نے کی تھی اور حملہ آور بھی سرحد پار آئے تھے۔ پاکستان ان الزامات کو مسترد کر چکا ہے لیکن اس نے لشکر طیبہ سے وابستہ مبینہ منصوبہ ساز ذکی الرحمن لکھوی سمیت سات لوگوں کے خلاف عدالتی کارروائی شروع کی تھی۔

2016ء کے اوائل میں اسلام آباد نے اس معاملے میں 27 بھارتی شہریوں کو بطور گواہ پاکستان بھیجنے کے لیے نئی دہلی سے رابطہ کیا تھا اور اُسی سال کے وسط میں بھارت نے اس پر آمادگی بھی ظاہر کی تھی۔ لیکن بوجوہ اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

رواں ہفتے ہی پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے بھی پاکستان کے اس موقف کو دہرایا کہ ممبئی حملوں کے مقدمے کی کارروائی میں تاخیر بھارت کی طرف سے عدم تعاون کی وجہ سے ہو رہی ہے۔