پالیسی کا فقدان سماجی شعبے میں پسماندگی کی وجہ: رپورٹ

(فائل فوٹو)

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال اس رپورٹ کے نتائج کو پاکستان کے لیے شرمناک قرار دیا۔
پاکستان میں سماجی ترقی سے متعلق میلینیئم ڈیویلپمنٹ گولز کی رپورٹ 2013 کے مطابق ملک میں سلامتی کی صورتحال اور قدرتی آفات کے علاوہ حکومتی سطح پر عدم توجہ اور فعال پالیسی کے فقدان کے باعث سماجی ترقی سے متعلق اہداف حاصل نہیں ہو پائیں گے۔

اقوام متحدہ اور حکومت پاکستان کی طرف سے بدھ کو جاری کی گئی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تعلیم، صحت، انتہائی غربت کے خاتمے، خواتین کو بااختیار بنانے، کم عمر بچوں کی اموات میں کمی اور ماحولیات کے شعبوں کے لیے طے کردہ کسی بھی ہدف کو پاکستان 2015 تک حاصل نہیں کر پائے گا اور صرف چند ذیلی شعبوں میں امید کی جاتی ہے کہ کچھ بہتری آئے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے اس رپورٹ کے نتائج کو ملک کے لیے شرمناک قرار دیا۔

’’ہمارے یہاں ہمیشہ سوچ رہی ہے کہ یہ شاید بین الاقوامی ذمہ داریاں ہیں۔ جسے پورا کر لیا تو کر لیا، نہیں کیا تو نہیں کیا۔ اب بچوں کو پڑھانا، ماؤں اور بچوں کی صحت ٹھیک کرنا یا لوگوں کو صفائی کی بہتر سہولیات دینا، یہ یو این کنونشن نہیں۔ یہ ہمارے اپنی ترقی کے تقاضے ہیں۔‘‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صرف ماحولیات کے شعبے اور ایچ آئی وی ایڈز سے متعلق پاکستان کی کارکردگی قابل ذکر ہے۔ رپورٹ میں سماجی شعبے میں زیادہ سے زیادہ وسائل خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو طرز حکمرانی میں بہتری لانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔

میلینیئم ڈیویلپمنٹ گولز پر پارلیمان کی ٹاسک فورس کی سربراہ مریم اورنگ زیب کا کہنا تھا کہ رپورٹ ’’ڈیپرسنگ‘‘ نہیں بلکہ یہ حکومت، قانون سازوں اور پالیسی سازوں کے لیے ایک ’’ویک اپ کال‘‘ ہے کہ وہ اپنی توجہ اور توانائیوں کو اس سمت میں استعمال کریں۔

’’تمام صوبائی اسمبلیوں میں بھی ٹاسک فورس بنائی گئی ہیں اور بجٹ سے پہلے ان کے اجلاس ہونگے کیونکہ ہم بجٹ سے پہلے تمام قانون سازوں کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کے حلقوں اور پاکستانیوں کے لئے یہ سماجی ترقی کے انڈیکیٹرز کتنے ضروری ہیں۔‘‘

ترقیاتی شعبے میں اقوام متحدہ کے لئے پالیسی سازی کے ماہر شکیل احمد کہتے ہیں کہ صرف اقتصادی ترقی ہی سے پاکستان میں خوشحالی ممکن نہیں بلکہ حکومت کو سماجی ترقی کو اپنی ترجیحات میں اہم مقام دینا ہوگا۔

’’پچھلی دہائی میں بھارت میں بہت زیادہ اقتصادی ترقی ہوئی مگر وہاں نیپال کی نسبت غربت کے خاتمے یا سماجی ترقی اتنی زیادہ نہیں ہوئی۔ نیپال کی قومی پیداوار ہم سے بھی کم ہے۔ اگر آپ نے نوکریاں دینی ہیں تو کن کو دینی ہیں؟ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والوں کو یا دیہاتوں میں رہنے والوں کو۔ دونوں سے ترقی ہوگی مگر اس میں کون شامل ہوگا یہ بھی اہم ہے۔‘‘


اقوام متحدہ کے عہدیداروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو جنوب ایشیائی ممالک بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سماجی شعبوں میں ترقی کے لیے ایک موثر پالیسی کے تحت اقدامات کرنے چاہیں۔

پاکستان اس وقت تعلیم اور صحت پر مجموعی طور پر قومی پیداوار کو چار فیصد سے بھی کم خرچ کرتا ہے۔