لڑکی سے شادی کی خواہشمند لڑکی

کرن بیشتر وقت لڑکوں کے روپ دھارے رہتی

ہم جنس رجحانات پاکستانی معاشرے میں نئے تو نہیں لیکن معاشرے میں نہ صرف انھیں قبول نہیں کیا جاتا بلکہ اس بارے میں سخت رویہ بھی پایا جاتا ہے۔

صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات میں ایک ایسا ہی واقعہ حال ہی رونما ہوا جہاں آپس میں شادی کی خواہشمند دو لڑکیاں اچانک اپنا گھر چھوڑ گئیں جن میں سے ایک کی والدہ نے دوسری لڑکی کے خلاف اغوا کا مقدمہ بھی درج کروا دیا ہے۔

18 سالہ ثمن خود سے ایک سال بڑی کرن سے شادی کرنا چاہتی تھی جس کا اس نے اپنی ماں سے تذکرہ کیا تھا۔

ثمن کی والدہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ اس کی جلال پور جٹاں کی کرن سے گہری دوستی تھی۔

کرن بیشتر وقت لڑکوں کا روپ دھارے ہوئے ہوتی ہے اور اکثر ہمارے گھر بھی آتی رہتی تھی۔ دونوں اکٹھے تنہائی میں کئی کئی گھنٹوں تک بیٹھے رہتے تھے۔"

ثمن کی والدہ بشیراں بی بی کے مطابق ایک دن انہوں نے دونوں کو قابل اعتراض حالت میں دیکھا تو وہ پریشان ہوئیں اور دونوں کو سمجھایا کہ یہ بری بات ہے۔ لیکن اس واقعہ کے بعد دونوں کی دوستی پہلے سے گہری ہوتی چلی گئی اور "ایک دن انہیں معلوم ہوا کہ ان دونوں کو آپس میں محبت ہے اور وہ ایک دوسرے سے شادی کرنا چاہتی ہیں۔"

بشیراں بی بی نے بتایا کہ انھوں نے دونوں لڑکیوں کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیر فطری عمل ہے اور کے بارے میں کسی سے ذکر نہ کریں۔

"13 دسمبر کو کرن ہمارے گھر آئی اور بازار لے جانے کے بہانے ثمن کو ساتھ لی گئی جب دونوں کافی دیر تک واپس نہ آئیں تو میں نے پولیس سے رابطہ کر کے کرن کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کروا دیا۔"

ضلع گجرات کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس عرفان الحق نے اس معاملے کے بارے بتایا کہ ایف آئی آر درج ہونے کے بعد پولیس نے دونوں لڑکیوں کی تلاش شروع کی تو معلوم ہوا کہ کرن، ثمن کو اپنے ساتھ کراچی میں اپنے ماموں کے گھر لے گئی تھی۔ جن کی بازیابی کے لیے کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔

ماہر نفسیات اور پنجاب اسٹیٹسٹکس فار ویمن کی رکن ام لیلیٰ اظہر کہتی ہیں کہ ایسے رجحانات پاکستانی معاشرے میں موجود چلے آ رہے ہیں لیکن پہلے ان پر کھلے عام بات نہیں ہوتی تھی تاہم اب یہ رپورٹ بھی ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "یہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی لڑکا یا لڑکی اپنے بچپن میں اپنے ہم جنسوں میں زیادہ وقت گزارتا ہے اور وقت کے ساتھ وہ ان کے آئیڈیل بن جاتے ہیں۔"

بادشاہی مسجد کے خطیب مولانا عبدالخبیر آزاد نے واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی معاشرہ اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دیتا اور ایسا کرنے والوں کو سختی سے منع کرتا ہے۔

ان کے بقول اگر والدین بالغ ہونے پر اپنے بچوں کے رجحان کو دیکھتے ہوئے ان کی مناسب وقت پر شادی کر دیں تو ایسے واقعات رونما نہ ہو۔ مولانا کے مطابق مذہب اسلام ایسے افراد کو جان سے مارنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔