شکیل آفریدی کی سزا پر امریکی تنقید مسترد

دفتر خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان

پاکستان نے امریکی سی آئی اے کی معاونت کرنے کے جرم میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو دی جانے والی قید کی سزا پر امریکہ کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے عدالتی فیصلوں کا احترام کرنا چاہیئے۔

پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کی انتظامیہ نے بدھ کو شکیل آفریدی کو غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے اُنھیں 33 سال قید اور 3 لاکھ 20 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

امریکی صدر براک اوباما کی انتظامیہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو 33 سال قید کی سزا کے فیصلے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اُس کی فوری رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے جبکہ امریکی سینیٹ کے بعض بااثر ارکان نے اپنے سخت ردعمل میں پاکستان کے لیے امداد کی کٹوتی کی دھمکی دی ہے۔

لیکن جمعرات کو ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب میں دفتر خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے امریکی تنقید اور مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر آفریدی کے مقدمے کا فیصلہ پاکستانی عدالت نے مقامی قوانین کے تحت کیا ہے جس کا امریکہ کو احترام کرنا چاہیئے۔

’’یہ فیصلہ پاکستانی قوانین کے مطابق عدالتوں نے کیا ہے اور ہمیں ایک دوسرے کے قانونی عمل کا احترام کرنا چاہیئے۔‘‘

ڈاکٹر شکیل آفریدی نے اسامہ بن لادن کی موجودگی کی تصدیق کے لیے امریکی سی آئی اے کی ایما پر ایبٹ آباد میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے اور ہپٹائیس سے بچاؤ کے ٹیکے لگانے کی جعلی مہم چلائی تھی۔ جس کا بنیادی مقصد القاعدہ کے مفرور رہنما اور اس کے خاندان کے افراد کے ڈی این اے نمونے حاصل کرنا تھا۔

ڈاکٹر آفریدی نے اسامہ کی رہائش گاہ اور اس کے گرد جعلی ویکسین کی مہم چلائی


اس انکشاف پر پاکستان حکام نے ڈاکٹر آفریدی کو گرفتار کر کے اس پر ملک سے غداری کے الزام میں مقدمہ قائم کیا اور تقریباً تین ماہ کی سماعت کے بعد بدھ کو انھیں مجرم قرار دیتے ہوئے قبائلی علاقوں میں رائج قانون ’ایف سی آر‘ کے تحت سزا سنائی گئی۔ مگر دنیا کو مطلوب ترین دہشت گرد تک رسائی میں مدد پر امریکہ میں اس پاکستانی ڈاکٹر کو ہیرو قرار دیا جا رہا ہے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان نے بظاہر اس تاثر کی نفی کرنے کی کوشش کی کہ ڈاکٹر آفریدی کو سزا دینے اور پاکستانی سرزمین پر تازہ امریکی ڈرون حملے دو طرفہ تعلقات کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔

"تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان اختلافی اُمور پر مذاکرات جاری ہیں۔ بات چیت اس عزم اور جذبے کے ساتھ کی جا رہی ہے کہ تمام مسائل کا باہمی طور پر قابل قبول حل تلاش کیا جا سکے۔‘‘

انھوں نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان ان تعلقات کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں اس لیے دونوں جانب تعلقات کو جلد سے جلد معمول پر لانے کی خواہش پائی جاتی ہے۔