پاک امریکہ تعلقات کس نہج پر

پاک امریکہ تعلقات کس نہج پر

سی آئی اے کے ڈاریکٹر جنرل مائیکل مولن اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کے درمیان گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں ملاقات کے بعد پاکستان سی آئے کے 87 اہلکاروں کو ویزے جاری کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ اس کے ساتھ یہ بھی طے پایا کہ وہ اپنی تمام تر سرگرمیوں کے متعلق حکومتِ پاکستان کو آگاہ رکھیں گے۔ دونوں اداروں کے سربراہان کی ملاقات کے پانچ دن بعد امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے چند ہی میل کے فاصلے پر ریاست ورجینیا کے شہر فیئر فیکس میں امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی اے نے کشمیری امریکن کونسل کے سربراہ ڈاکٹر غلام نبی فائی کو گرفتار کر لیا اور ان پر یہ الزام لگایا کہ ان کی تنظیم کو آئی ایس آئی مالی معاونت فراہم کرتی ہے۔

مائیکل کوگل مین کا تعلق واشنگٹن کے تحقیقی ادارے وڈروولسن سینٹر سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ گرفتاری ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب دونوں ممالک کے تعلقات تناؤ کاشکار ہیں۔

http://www.youtube.com/embed/yJfdryFIZmc

کوگل مین کا کہناتھا کہ یہ شخص واشنگٹن میں کئی دہائیوں سے کام کر رہاتھا۔ اسے اس وقت ہی گرفتارکیوں کیا گیا۔ دس سال پہلے کیوں نہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایسا صرف پاکستانی فوج کو ایک پیغام پہنچانے کے لیے کیا گیا ہے۔

کوگل مین کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پاکستان کےسیکورٹی اداروں نے سی آئی اے کو اسامہ بن لادن کے متعلق مبینہ طور پر اطلاعات فراہم کرنے والے ایک ڈاکٹر کو گرفتار کیا ہے۔

پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی کا فائدہ دہشت گردوں کو ہوگا۔

دوسری جانب افغانستان سے امریکی فوج کے مرحلہ وار انخلا کا آغاز ہو چکا ہے اور وہاںسیکیورٹی ذمہ داریاں افغان فورسز کو منتقل کی جا رہی ہیں۔ اس صورتِ حال میں صدر آصف علی زرداری کے حالیہ ایران اور سعودی عرب کے دورے کو واشنگٹن میں غیر معمولی اہمیت دی گئی۔

کوگل مین کہتے ہیں کہ امریکہ جانتا ہے کہ پاکستان یہ اشارہ دے رہا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ نہیں چل پا رہے تو ہم ایک ایسے فریق کے پاس جائیں گے جس کے ساتھ ہم چل سکتے ہیں۔ وہ فریق آپ کو پسند نہیں مگر آپ واشنگٹن میں بیٹھ کر کچھ نہیں کر سکتے۔

واشنگٹن کے مبصرین کہتے ہیں کہ امریکی انتظامیہ یہ بھی سمجھتی ہے کہ پاکستان، اپنے پڑوسی ملک سے بین الاقوامی افواج کے انخلا کے پیشِ نظر افغانستان سمیت خطے میں امن کی کوششوں کو آگے بڑھانے میں جنوبی ایشیائی ممالک کو بھی شامل کرنا چاہتا ہے۔