پاکستان اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری دوسروں پر نہ ڈالے: کیمرون منٹر

’پاکستان میں عام تاثر یہ ہے کہ امریکہ وقت پڑنے پر پاکستان کو استعمال کرتا ہے اور بعد میں اسے پیچھے دھکیل دیتا ہے، جب کہ امریکیوں کا کہنا ہے کہ ہم انہیں رقم دیتے ہیں مگر وہ کچھ نہیں کرتے، جو انہیں کہاجاتا ہے‘
ایمبسیڈر کیمرون منٹر اکتوبر 2010 ءسے جولائی 2012 ءتک پاکستان میں امریکہ کے سفیر رہے، جب کہ اس سے پہلے وہ سربیا میں بھی امریکی سفیر کے فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ پاکستان میں ان کے قیام کے عرصے میں دونوں ملکوں کے تعلقات ایک مشکل ترین دورسے گزررہے تھے اور وہ عرصہ ٴسفارت کاری کے لیے ایک کڑا امتحان تھا۔

پاکستان میں ان کی تعیناتی کے دوران، ایبٹ آباد میں امریکی اسپیشل فورسر کے خفیہ آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت ہوئی اور اس کے بعدافغان سرحد پر رونما ہونے والے ناخوشگوار واقعات پاک امریکہ تعلقات کے لیے ایک اور آزمائش ثابت ہوئے۔ اس نازک دور میں مسٹر منٹر نے اپنی سفارتی ذمہ داریاں انتہائی خوش اسلوبی سے نبھائیں اور دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔

ایمبیسڈر کیمرون منٹر اِن دنوں امریکہ کے پونوما کالج میں بین الاقوامی تعلقات کے وزیٹنگ پروفیسر ہیں۔ پچھلے دنوں، ’ وائس آف امریکہ‘ نے انہیں اپنے ٹیلی ویژن شو ’کیفے ڈی سی‘ میں مدعو کیا اور اردو سروس کے سربراہ فیض رحمن نے پاکستان میں ان کی تعیناتی اور دلچسپی کے دیگر موضوعات پر تفصیل سے گفتگو کی۔

تفصیلی انٹرویو سننے کے لیے اِس لنک پر کلک کیجئیے:

http://www.urduvoa.com/media/video/1612991.html?z=0&zp=1

انٹرویو کے دوران، کیمرون منٹر نے پاکستان سے متعلق اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اور ان کی اہلیہ کو پاکستان بہت یاد آتا ہے۔ ان کا کہناتھا کہ اپنے قیام کے دوران انہیں پاکستان کے مختلف علاقوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملنے اور ان سے گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ پاکستانی اپنے جذبات کے اظہار میں بڑے صاف گو ہیں۔ایک عام امریکی بھی ایسا ہی کرتا ہے ۔ دونوں ہی دوسروں کی دل کھول کر مدد کرتے ہیں۔ مجھے پاکستان اس لیے بھی یاد آتا ہے کہ دونوں ملکوں کے لوگوں میں بہت سی قدرِ مشترک ہے۔

سابق امریکی سفیر کا کہناتھا کہ پاکستان میں عام تاثر یہ ہے کہ امریکہ وقت پڑنے پر پاکستان کو استعمال کرتا ہے اور بعد میں اسے پیچھے دھکیل دیتا ہے، جب کہ امریکیوں کا کہنا ہے کہ ہم انہیں رقم دیتے ہیں مگر وہ کچھ نہیں کرتے جو انہیں کہاجاتا ہے۔

انہوں نے بعض پاکستانی حلقوں کی جانب سے لگائے جانے والے ان الزامات کو بھی غلط قرار دیا کہ امریکی امداد کا ایک بڑا حصہ مختلف فیسوں، معاوضوں اور کنٹریکٹس کی شکل میں امریکہ واپس چلاجاتا ہے اور ان کے پاس استعمال کے لیے بہت کم فنڈز بچتے ہیں۔

مسٹر منٹر کا کہنا تھاکہ پاکستانیوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹہراتے ہیں، جو کہ ایک غلط اقدام ہے کیونکہ قرضوں اور امداد کا ایک اپنا طریقہ کار ہوتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اعتراضات اور الزامات کی بجائے پاکستانیوں کو اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں۔

ان کا کہناتھا کہ، ’ بہتر یہ ہے کہ پاکستانی ہمارے پاس آکر یہ کہیں کہ ہمارے پاس ترقیاتی منصوبے ہیں۔ ان کی قیادت ہم کریں گے۔ آپ ان پروگراموں میں ہماری مدد اور معاونت کریں ۔ مگر اس کی بجائے وہ ہم سے یہ کہتے ہیں کہ آپ رقم دیں اور کام بتائیں۔ اور پھر جب منصوبہ ناکام ہوجاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم کیا کریں ، آپ کا منصوبہ ہی غلط تھا‘۔

سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر نےتجویز کیا کہ حکومتی پروگراموں سے ہٹ کر مختلف شعبوں میں دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرکے ترقی کی راہوں پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے فروغ کے وسیع تر امکانات موجود ہیں۔

اُن کے بقول، ’ دونوں ممالک تعلیم کے شعبوں میں تبادلے کے پروگراموں کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ تعلیم کا فروغ ترقی کی راہیں ہموار کرتا ہے‘۔

سابق امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان ایک اور قدرِ مشترک یہ ہے کہ دونوں خیراتی اور امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اس شعبے میں بھی دونوں ممالک اپنا تعاون بڑھا سکتے ہیں۔

اُن کا کہناتھا کہ وہ اِن شعبوں میں تعاون بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔

’کیری لوگر بل‘ پر دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کیمرون منٹر کا کہناتھا کہ پاکستان میں سویلین حکومت قائم ہونے کے بعد سینیٹر کیری کا خیال تھا کہ سویلین آئیڈیاز پر سرمایہ کاری کی جائے ۔ ان کوششوں میں ہالبروک جیسے راہنما بھی شریک تھے۔

لیکن، اُن کے الفاظ میں،’ ہماری یہ کوششیں بارآور ثابت نہ ہوسکیں، کیونکہ پاکستانیوں نے اپنے حصے کی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ مثال کے طور پر تعلیمی شعبے کی اصلاحات کے لیے قانون سازی ہی نہیں کی گئی اور ان پروگراموں کو چلانے کے لیے صلاحیت مند افراد کوسامنے نہیں لایا گیا جِس کے نتیجے میں صوبوں کو دیا جانے والا کیثر سرمایہ ضائع چلاگیا‘۔

اُن کا کہناتھا کہ امریکہ پاکستان کے مسائل حل نہیں کرسکتا۔ پاکستانیوں کو اپنے مسئلے خود ہی حل کرنا ہیں، جس کے لیے انہیں اچھی لیڈرشپ، گڈ گورننس اور مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈرون حملوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں سابق امریکی سفیر نے کہا کہ یہ ایک خفیہ پروگرام ہے ،جس پر وہ زیادہ بات نہیں کرسکتے۔

لیکن، اُنھوں نے بتایا کہ، اِس پروگرام سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ، ’ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ یہ جنگ ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف ہے جو معصوم پاکستانیوں کو قتل کررہے ہیں ، جو امریکیوں کو مار رہے ہیں اور جو اعتدال پسند معاشرے کا خاتمہ کرنے کے درپے ہیں۔ ان سے لڑنے کے مختلف طریقے ہیں اور ہمیں یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے کونسا طریقہ زیادہ موثر ثابت ہوسکتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اُن کے قیام کے زمانے میں اس سلسلے میں اختلافات پیدا ہوئے تھے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردوں سے لڑنے کے لیے دونوں ممالک ایک دوسرے پر اعتماد کریں اورایک دوسرے سے تعاون کریں۔

ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر دونوں ممالک کے درمیان کھڑے ہونے والے تنازع پر کیمرون منٹر کا کہناتھا کہ وہ دونوں ملکوں کے لیے ایک بہت تکلیف دہ تجربہ تھا۔ ’ہمارا موٴقف یہ تھا کہ ڈیوس کو جنیوا کنونشن کے تحت تحفظ حاصل ہے، جب کہ بہت سے پاکستانی اس سے اختلاف کررہے تھے۔ تاہم، اس مسئلے کے حل کے لیے، حکومت کے کئی اعلیٰ عہدے داروں نے سنجیدہ کوششیں کیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مشکل ترین معاملات میں بھی ایک دوسرے کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ایک ٹیم کے جذبے سے کام کیا جائے تو راہیں نکالی جاسکتی ہیں۔

مسٹر منٹر نے سینیٹر کیری کی امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے تعیناتی کو پاکستان کی خوش قسمتی سے تعبیر کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹر کیری پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور انہوں نے مختلف موقعوں پر پاکستان کے لیے کافی کچھ کیا ہے۔ اس اہم عہدے پر ان کی موجودگی سے دونوں ممالک کے تعلقات بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔

افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں مسٹر منٹر کا کہناتھا کہ وہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ امریکہ اس خطے سے متعلق نہ صرف خود اپنے وعدوں پر قائم رہے گا، بلکہ اپنے اتحادی ممالک پر بھی افغانستان سے لمبی مدت کی کمٹمنٹ پوری کرنے پر زور دے گا۔ ان کا کہناتھا کہ نئے منظر نامے میں افغانستان کے پروسٹی ممالک کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی ۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ افغانستان کے مستقبل کو سنوارنے، وہاں کی معیشت ، تعلیم اور ثقافتی شعبوں کی ترقی کے لیے پاکستان اور بھارت مل کرکام کریں گے۔

سفیر کے عہدے سے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کی مصروفیات کے بارے میں کیمرون منٹر کا کہناتھا کہ وہ تدریس اور لیکچرز کے ساتھ ساتھ پاکستان اور اس خطے کے عوام کے لیے بھی کام کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور دوسرے معاملات حکومتوں پر چھوڑ دینے چاہیں، جب کہ ہمیں عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے، تعلیم، تجارت ، ثقافت اور دوسرے شعبوں کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی موسیقی میں بڑی قوت ہے اور پاکستان اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، جب کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ثقافتی اور معاشی رابطے بڑھانے کے لیے افراد اور تنظیمیں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔

مستقبل سے متعلق اپنے خوابوں کا ذکر کرتے ہوئے مسٹر منٹر نے کہا ہے کہ وہ جنوبی ایشیائی خطے میں تبدیلیاں آتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ انہیں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان اور بھارت باہمی تجارت کے ذریعے ایک دوسرے کی معاشی ترقی میں کردار ادا کریں گے۔ اس جانب پیش رفت کا آغاز ہوچکاہے۔ اگرچہ اس کی رفتار سست ہے لیکن، ویزے ، تجارتی محصولات، اور سیاچین سمیت سرحدی تنازعات پر دونوں ممالک کی بات چیت آگے بڑھ رہی ہے۔ ہر چند کہ دونوں ملکوں کا ماضی تلخیوں سے بھرا ہے لیکن ان کا مستقبل یقیناً ماضی سے مختلف ہوگا ۔ اور وہ ایک ایسے دن کا خواب دیکھتے ہیں جب بنگلور کے سرمایہ کار اپنی صنعتوں کے لیے فیصل آباد کے نوجوانوں کو مواقع فراہم کیا کریں گے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کیفے ڈی سی Ambassador Cameron Munter