یمن میں شدت پسندوں کے خلاف کی گئی کارروائی کی تحقیقات

وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری شان سپائسر

جمعرات کو ہی سینٹرل کمانڈ  نے کہا کہ وہ اس چھاپہ مار کارروائی کی تحقیقات کر رہی ہے اور اس بات کی تصدیق کی کہ بظاہر بچوں سمیت عام شہری بھی (اس کارروائی میں) ہلاک ہوئے۔

صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ اتوار کو یمن میں شدت پسند تنظیم القاعدہ پر ہونے والی چھاپہ مار کارروائی کو "کامیاب قرار دینا مشکل" ہے، جس میں یمن کے شہریوں اور ایک امریکی فوجی سمیت ایک درجن سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

شان سپائسر نے جمعرات کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ "کارروائی بڑی سوچ بچار کے" بعد کی گئی جس کی منطوری صدر نے 26 جنوری کو دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس کارروائی کو ترتیب دینے کا عمل 7 نومبر کو صدارتی انتخاب سے ایک روز پہلے شروع ہوا جب براک اوباما صدر تھے۔

سپائسر نے اس بات پر زور دیا کہ "یہ بہت سوچ بچار کے بعد اس کوشش پر عمل درآمد کیا گیا ہے۔"

دوسری طرف جمعرات کو ہی سینٹرل کمانڈ نے کہا کہ وہ اس چھاپہ مار کارروائی کی تحقیقات کر رہی ہے اور اس بات کی تصدیق کی کہ بظاہر بچوں سمیت عام شہری بھی (اس کارروائی میں) ہلاک ہوئے۔

پینٹا گون کی ایک ترجمان نے کہا کہ عام شہری شاید امریکی طیارے کی گولہ باری کی زد میں آنے سے ہلاک ہوئے ہوں گے۔

پینٹاگون کے ترجمان جیف ڈیوس نے جمعرات کو اس بات کی تصدیق کی کہ ان کے بقول "اس بہت ہی شدید لڑائی میں " خواتین بھی شامل تھیں اور اس دوران امریکی فورسز کو اپنی مدد کے لیے فضائی مدد کی ضرورت پڑی۔ انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں نے ایک ایسے علاقے سے جوابی فائرنگ شروع کر دی جس کی وجہ سے عام شہریوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ فوج نے یہ کارروائی القاعدہ کی امریکہ کے خلاف ممکنہ کارروائیوں سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ابتدائی منصوبے کے مطابق "وہاں جانا، چھاپہ مار کارروائی کرنا اور چیزوں کو اٹھا کر واپس آنا تھا۔"

اس کارروائی کے دوران ہلاک ہونے والے امریکی فوج کے ایک اہلکار ریان اونز کے جسد خاکی کو جب وطن واپس لایا گیا تو امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ڈور ائیر بیس پر موجود تھے۔ صدر ٹرمپ کی شرکت کے بارے میں پہلے سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا۔

امریکی فوج کے تین اہلکار اس وقت زخمی ہوئے جب ان کے ہیلی کاپٹر نے اس جگہ لینڈ کیا جہاں سے یہ کارروائی کی جانی تھی۔