بلوچستان کی حکومت نے کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاؤن میں پیش آنے والے واقعے کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ جو 15 روز میں واقعے کی رپورٹ صوبائی وزارتِ داخلہ کو پیش کرے گی۔
پولیس حکام کے مطابق اس واقعے میں ملوث 12 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
کوئٹہ کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس عبد الرزاق چیمہ کا کہنا ہے کہ ہفتے کی شام کوئٹہ شہر کے نواحی علاقے ہزارہ ٹاﺅن میں ایک حجام کی دکان میں بیٹھے تین پشتون نوجوانوں پر پہلے گھونسوں اور لاتوں سے تشدد کیا گیا بعد ازاں ان کو چاقو سے شدید زخمی کر دیا گیا اور ان کے کپڑے بھی پھاڑ دیے گئے۔
پولیس نے تینوں زخمی نوجوانوں کو سول اسپتال منتقل کا تھا۔ جہاں ایک نوجوان بلال نورزئی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ تاہم دیگر زخمی نوجوان اب بھی زیر علاج ہیں۔
ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں غفلت برتنے پر مقامی تھانے کے ایس ایچ اور چار دیگر ذمہ دار اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق حجام کے گھر سے واقعے میں استعمال ہونے والی گاڑی بھی برآمد کر لی گئی ہے۔
تشدد کے واقعے میں زخمی ہونے والے نیاز محمد کا کہنا ہے کہ انہوں نے افغانستان سے چمن کے راستے بغیر رجسٹریشن ایک کار کوئٹہ لاکر ہزارہ ٹاﺅن میں حجام کو چار لاکھ 20 ہزار میں فروخت کی تھی۔
ان کے بقول وہ اپنے دو دیگر دوستوں کے ہمراہ حجام سے پیسے وصول کرنے کے لیے اس کی دکان پر گئے۔ جہاں باتوں باتوں میں تلخی بڑھ گئی۔ حجام اور اس کے ساتھیوں نے ان پر تشدد کیا اور چاقو سے وار کیے۔
نیاز محمد کے مطابق حجام نے اپنے علاقے کے دیگر لوگوں کو بھی طلب کیا اور ان سے غلط بیانی کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ یہ تینوں نوجوان یہاں سے گزرنے والی خواتین کی موبائل کے ذریعے ویڈیو بنا رہے تھے۔ جس پر وہاں لوگوں کا جم غفیر اکٹھا ہوگیا اور انہیں گھسیٹ کر حمام کے اندر بنائے گئے غسل خانوں میں لے گئے۔ جہاں مزید تشدد کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ تشدد سے ہمارا ایک ساتھی بے ہوش ہو گیا۔ جس نے بعد میں اسپتال پہنچ کر دم توڑ دیا۔
تشدد کے اس واقعے کے خلاف نورزئی قبیلے اور خروٹ آباد میں رہنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے گورنر ہاؤس اور وزیر اعلیٰ ہاﺅس کے قریب کئی گھنٹوں تک دھرنا دیا۔ اتوار کو ہونے والے احتجاج میں ملزمان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ تاہم وزیرِ داخلہ کی ملزمان کے خلاف فوری کارروائی کی یقین دہانی پر دھرنا ختم کیا گیا۔
'حجام سمیت 12 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے'
صوبائی وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں جو بھی ملوث ہو گا۔ اس کے خلاف بلاتفر یق کارروائی کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ نہتے لوگوں پر اس طرح کا تشدد نا قابلِ برداشت ہے۔ حجام سمیت 12 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ جن سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
صوبائی وزیر داخلہ نے بتایا کہ وہ مزید کارروائی بھی کر یں گے اور متاثرہ فریق کو انصاف فراہم کریں گے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ملزمان کی فوری گرفتاری کی ہدایت کی تھی اور واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے۔
اس واقعے کی سوشل میڈیا پر بھی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔
انسانی حقوق کی کارکن گلالئی اسماعیل کا ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ کوئٹہ میں تین نوجوانوں پر ہونے والا تشدد انتہائی تکلیف دہ ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ اس طرح کا واقعہ کیوں پیش آنے دیا گیا؟
Mob lynching of 3men in Quetta is extremely disturbing. We%27ve got a serious collective vigilante culture problem, depicting the complete deterioration of the social fabric. The ethnicity of killed & killers isn%27t the question here, the question is "why it was allowed to happen?"
— Gulalai_Ismail (@Gulalai_Ismail) May 30, 2020
سابق وفاقی وزیر اور قومی وطن پارٹی کے رہنما آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے ٹوئٹ میں واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
Strongly condemn the brutality committed in Hazara Town.This mob mentality is shameful for the whole society. The perpetrators of this heinous act should be immediately brought to justice#Justice4QuettaMartyrs #HazaraTown #Quetta #JusticeForBilal pic.twitter.com/ATfo8Dm7W4
— Aftab Khan Sherpao (@AftabSherpao) May 30, 2020
ٹوئٹر پر ایک صارف علی خٹک کا کہنا تھا کہ کوئٹہ میں تین لوگوں پر تشدد کیا گیا۔ انصاف جلد از جلد ہونا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ حالات مزید بگڑ جائیں۔
Three young teenagers lynched in a single day in #Quetta justice must be done ASAP before the situation dettoriates further🙏#justiceforjibran #JusticeForBilalNoorzai #HazaraTown pic.twitter.com/aTWo7vR0tr
— N Ali Khattak (@NawabAliKhan7) May 30, 2020
ٹوئٹر صارف شمس خان کی طرف سے واقعے میں ہلاک ہونے والے بلال نورزئی کے جنازے کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ یہ خاندان انصاف چاہتے ہیں۔
Thousand of people%27s are giving peaceful strike imprint of governor house.@jam_kamal and @dpr_gob,of balochistan these families want justice. This nation%27s tired any more to up dead body%27s. #HazaraTown . pic.twitter.com/ERj7LHmzac
— shams khan (@shamsNoorzai) May 30, 2020
خان زمان کاکڑ کی طرف سے اے این پی کے صوبائی صدر اصغر اچکزائی کی ویڈیو شیئر کی گئی۔ جس میں وہ اس واقع کے خلاف ہونے والے احتجاج سے خطاب کر رہے ہیں۔
ANP Provincial President @AsgharAchakzaii addressing the protest against #HazaraTown incident in Quetta.ANP stands with its own people and demands #JusticeForBilal and other victims. pic.twitter.com/ZEZcGSrLiG
— Khan Zaman Kakar (@khanzamankakar) May 30, 2020
قومی اسمبلی کے رکن اور پشتون تحفظ تحریک کے رہنما محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ قابل مذمت ہے۔ واقعے میں ملوث ملزمان کو جلد گرفتار کیا جائے۔
Strongly condemn the barbaric lynching of Pashtuns in #HazaraTown. We demand #Justice4QuettaMartyrs, & immediate arrest of their killers. Also, some are trying to fan hatred between Pashtuns and Hazaras at this time. We need to avoid that, criminals don%27t represent ethnicities.
— Mohsin Dawar (@mjdawar) May 30, 2020