رسائی کے لنکس

کیا ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات امن کے لیے ناگزیر ہیں؟


حالیہ دنوں میں بلوچستان میں پر تشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
حالیہ دنوں میں بلوچستان میں پر تشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

بلوچستان کے سیاسی رہنماوؑں اور تجزیہ کاروں کے مطابق جلا وطن بلوچ رہنماوؑں سے مذاکرات کے ذریعے ہی بلوچستان میں دیر پا امن کا قیام ممکن ہو سکتا ہے۔

صوبہ بلوچستان میں تشدد کے واقعات میں حالیہ اضافے کے بعد مذاکرات کی ضرورت کو محسوس کیا جا رہا ہے۔ ان واقعات کے بعد شہریوں میں عدم تحفظ کے احساس میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

سیاسی رہنماوؑں اور تجزیہ کاروں کے مطابق بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے جو طاقت کی بجائے مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہو سکتا ہے۔

سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے وائس آف امر یکہ سے گفتگو کے دوران کہا کہ صوبے میں بعض قوم پرست اور مذہبی شدت پسند تنظیمیں امن و امان میں خلل ڈال رہی ہیں۔ ان کے بقول بلوچ قوم پرستوں کی یہ پانچویں بغاوت ہے۔ اس سے قبل پہاڑوں کا رخ کرنے والے قوم پرستوں سے مذاکرات کے بعد ہی معاملات کو سلجھایا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت نیشنل پارٹی نے پرامن بلوچستان کا تصور پیش کیا تھا جس کے تحت بیرون ملک مقیم خان آف قلات اور براہمداغ بگٹی سے ملاقاتیں کی گئیں۔ ان رہنماوؑں نے چند شرائط منظور کئے جانے کے عوض وطن واپسی پر آمادگی ظاہر کی تھی۔

ڈاکٹر عبدالمالک کہتے ہیں کہ اس مذاکراتی عمل کو وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کی بھی حمایت حاصل تھی۔ تاہم ان کے وزارت اعلیٰ چھوڑنے کے بعد یہ عمل تعطل کا شکار ہو گیا۔

ڈاکٹر مالک کہتے ہیں کہ انہیں امید نہیں کہ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومت مذاکرات کے لئے سنجیدہ ہے اور نہ ہی دوسرے فریقین سنجیدگی دکھا رہے ہیں۔ ان کے بقول بلوچستان ایک وسیع و عریض علاقہ ہے۔ یہاں پہاڑوں میں روپوش ہو جانے والوں کو ڈھونڈنا بہت مشکل عمل ہے۔ لہذا مذاکرات ہی مسئلے کا واحد حل ہے۔

اکبر بگٹی کی ہلاکت پر تشدد واقعات میں اضافے کی وجہ؟

بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ نواب اکبر بگٹی کی سنہ 2006 میں ایک مبینہ فوجی آپر یشن میں ہلاکت کے بعد صوبے کے مختلف علاقوں میں پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔

اعداد و شمار کے مطابق نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد فوجی تنصیبات پر حملوں میں دو ہزار سے زائد سیکورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ علیحدگی پسند تنظیموں کے کارکنوں سمیت تین ہزار کے لگ بھگ عام شہری بھی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

تاہم شدت پسندی کی کارروائیوں میں تاحال کوئی کمی نہیں آ سکی ہے جبکہ ہزارہ برادری پر ہونے والے حملوں میں اضافے کے علاوہ فرقہ ورانہ واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

تجزیہ نگار رشید بلوچ کا کہنا ہے کہ جو علیحدگی پسند گروپ مذاکرات کے لئے تیار ہے پہلے اس سے بات چیت کی جائے۔ ان کے بقول بیک وقت سب کے ساتھ مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔ ایک فریق کے ساتھ معاملات طے پا جائیں تو دوسرے فریق کو قائل کرنے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔

آئین کے دائرے میں مذاکرات کے حق میں ہیں

بلوچستان کی مخلوط صوبائی حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی کا کہنا ہے کہ صوبے میں بدامنی کی حالیہ لہر پر حکومت کو تشویش ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ آئین پاکستان کے دائرے میں رہ کر عسکریت پسندوں اور بیرون ملک مقیم بلوچ رہنماوؑں سے مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں۔

لیاقت شاہوانی کا کہنا ہے کہ پرامن بلوچستان موجودہ صوبائی حکومت کی پالیسی ہے۔ اس حکومت کے دوران متعدد فراریوں نے ہتھیار ڈالے ہیں جنہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے اقدامات کئے گئے ہیں۔ ایسے افراد کے لئے ایک خصوصی پیکج بھی مختص کیا گیا ہے۔

رواں سال کے آغاز سے لے کر اب تک بلوچستان میں پر تشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ حکام کے مطابق مختلف شورش زدہ علاقوں میں ایک درجن سے زائد بم دھماکے ہو چکے ہیں۔ گوادر ہوٹل اور سیکورٹی فورسز پر حملوں میں 37 اہل کاروں سمیت 110 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

سنہ 2018 میں بلوچستان میں سیکورٹی فورسز پر ہونے والے 118 حملوں میں 105 اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔

XS
SM
MD
LG