سی پیک منصوبے میں مبینہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا مطالبہ

فائل فوٹو

حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے پارلیمان کے ایوان بالا میں چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی 'سی پیک' کے منصوبوں میں چار ارب روپے کی مبینہ بے قاعدگیوں کے معاملے پر سینیٹ میں تحریک التوا جمع کروائی ہے۔

شیری رحمٰن نے تحریک التوا میں پاکستان کے آڈیٹر جنرل کی ایک رپورٹ کا حوالے دیتے ہوئے کہا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت وفاقی حکومت کے سڑکوں کے منصوبوں میں بڑے پیمانے پر مبینہ بے قاعدگیاں ہوئیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات اس لیے بھی انتہائی پریشان کن ہے کہ یہ منصوبے سی پیک کے تحت شروع کیے گئے تھے۔ شیری رحمٰن نے حکومت سے اس معاملے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ اس معاملے کی واضح صورت حال سامنے آ سکے۔

اگرچہ حکومت کی طرف سے شیری رحمٰن کی تحریک التوا پر تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں ہے تاہم پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ رانا محمد افضل نے جمعہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سی پیک کے منصوبوں میں کسی بے قاعدگی کے تاثر کو رد کیا تاہم انہوں نے کہا کہ شیری رحمٰن کو یہ معاملے اٹھانے کا جمہوری حق حاصل ہے اور ان کے بقول حکومت اس معاملے کی وضاحت کرے گی۔

رانا افضل نے کہا کہ"سی پیک کے سڑکوں کی منصوبوں پر زیادہ تر ایف ڈبلیو او (فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن ) کا ادارہ کام کر رہا ہے اور جو گوادر کی بندرگاہ اور وہاں سڑکوں پر کام ہو رہا ہے ان کے لیے چین نے قرضہ فراہم کیا ہے اور چینی کمپنیاں ان پر کام کر رہی ہیں اس لیے میرا نہیں خیال کہ ان میں کوئی بے ضابطگی ہو گی"

پاکستان میں تعمیر ہونے والے اربوں ڈالر سے زائد مالیت کا چین پاکستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ اپنی نوعیت کو پہلا منصوبہ ہے اور اس منصوبے کی منفرد حیثیت کے پیش نظر بعض حلقے اس کی شفافیت سے متعلق تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

اقتصادی امور کے ماہر عابد سلہری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تحفظات اسی وقت دور ہو سیکیں گے جب سی پیک سے متعلق عوام کو مکمل معلومات فراہم کی جائیں گی۔

عابد سلہری نے مزید کہا کہ سی پیک اتنا کثیر الجہت اور کثیر المقاصد منصوبہ ہے کہ شاید قومی اسمبلی کی ایک قائمہ کمیٹی کے دائرہ کار میں میں نہ آئے۔ ان کے بقول اس کے لیے ایک سیلیکٹ کمیٹی بنا دینی چاہیے جو اس کی نگرانی کرتی رہے اور اس کا اسی طرح جائزہ لیتی رہے جس طرح پارلیمان کی دیگر کمیٹیاں اہنا کام کرتی ہیں۔

چین پاکستان اقتصادی راہدار ی کے منصوبے کے تحت ملک میں بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے کئی منصوبوں پر کام جاری ہے اور بعض حلقوں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ ان منصوبوں کی شفافتیت کو برقرار رکھنے کے لیے اس منصوبے کے مختلف پہلوؤں پر عوامی اور پارلیمانی سطح پرکھل کر بحث کرنا ضروری ہے۔