پولیس نے کراچی میں پشتون تحفظ تحریک کے پشاور سے تعلق رکھنے والے رہنما عالم زیب خان محسود کو گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس نے عالم زیب خان محسود کو کلفٹن کے علاقے سے اس وقت گرفتار کیا جب وہ اپنے ایک دوست کے ہاں جارہے تھے۔
پولیس نے عالم زیب خان محسود اور دیگر کے خلاف درج مقدمے میں الزام عائد کیا ہے کہ عالم زیب خان محسود نے کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں ایک جلسہ کیا تھا جس میں ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کی گئی اور املاک کی توڑ پھوڑ سے شہر کے امن کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ پولیس کے مطابق جلسے میں حکمرانوں اور فوج پر جھوٹے اور غلط الزامات بھی عائد کیے گئے جبکہ اسی جلسے میں بعض شر انگیز قسم کے پمفلٹ بھی تقسیم کیے گئے۔
کراچی کے سہراب گوٹھ تھانے میں درج ہونے والی ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی کی دفعات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ سرکار کی مدعیت میں درج ہونے والے اس مقدمے میں عالم زیب محسود سمیت 16 دیگر افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔
پشتون تحفط موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کی جانب سے ٹوئٹر پر کہا گیا ہے کہ کراچی میں عالم زیب محسود سمیت پی ٹی ایم کے کئی ساتھیوں کو پولیس اور سادہ لباس میں ملبوس خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے "اغوا" کیا ہے۔ ان کے مطابق عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ عالمزیب محسود کو وہی پولیس افسر اور خفیہ ایجنسیوں کے لوگ ساتھ لے کر گئے ہیں جو سابق ایس ایس پی اور نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم راؤانوار کے ساتھ ہمیشہ اکھٹے پھرتے تھے۔
کراچی میں عالمزیب سمیت پی ٹی ایم کے کئی ساتھیوں کو کراچی پولیس اور سیول کپڑو میں ملبوس خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے اغوا کئے ہیں عینی شاھدین کا کہنا ہے کہ ائے ہوے پولیس افیسر اور خفیہ ایجنسیوں کے لوگ وہی لوگ تھے جو راوانوار کے ساتھ ہمیشہ اکھٹے پھرتے تھے pic.twitter.com/lyIHOetN2o
— Manzoor Pashteen (@manzoorpashteen) January 21, 2019
پی ٹی ایم کراچی کے ذمہ داران ہنگامہ آرائی اور شر انگیزی کے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ پشتون تحفظ تحریک کراچی کے سرکردہ رہنما نوراللہ خان ترین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت نے کوئی غیرقانونی اقدام نہیں کیا۔ قانون کو ہاتھ میں لینے کے الزامات غلط ہیں۔ ہماری جماعت نے اپنی سیاسی طاقت کا پر امن مظاہرہ کیا جس کی ملکی آئین اور قانون میں کوئی ممانعت نہیں۔
نور اللہ خان ترین نے کہا کہ ان کا قصور یہ ہی ہے کہ انہوں نے بعض ملکی اداروں کے بارے میں جو کہا وہ سچ کہا اور وہ اس پر قائم ہیں۔ نور اللہ خان ترین کے مطابق ان کی جماعت کے رہنماؤں کو سچ بولنے کی سزادی جارہی ہے۔ ان کےمطابق پی ٹی ایم کو یہ نہیں بتایا جارہا کہ عالم زیب محسود کو گرفتار کرنے کے بعد کہاں رکھا گیا ہے۔
دوسری جانب پولیس کی طرف سے اس بارے میں اب تک کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔ وائس آف امریکہ نے کئی بار پولیس حکام سے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی لیکن جواب نہ مل سکا۔
ادھر عالم زیب محسود کی گرفتاری پر ایمنسٹی انٹرنیشنل جنوبی ایشیا نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل جنوبی ایشیا کے ٹوئٹر اکاونٹ سے جاری پیغام میں کہا گیا ہے کہ عالم زیب محسود سے متعلق انتظامیہ جلد یہ بتائے کہ انہیں کس جگہ رکھا گیا ہے اور اگر ان سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو انہیں فوری طور پر عدالت میں پیش کیا جائے یا پھر بغیر کسی انتظار کے انہیں فوری رہا کیا جائے۔
We are concerned about reports of the disappearance of PTM activist Alamzeb Mehsud. His whereabouts must be disclosed immediately. Either produce him in court or release him without delay.
— Amnesty International South Asia (@amnestysasia) January 21, 2019
دوسری جانب سندھ میں برسر اقتدار جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ چئیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر عالم زیب محسود کو ایک وکیل بھی فراہم کیا جارہا ہے۔ انہوں نے اس اقدام کو حوصلہ افزاء قرار دیا اور کہا ہے کہ اس طرح وہ عناصر بے نقاب ہوں گے جو پی ٹی ایم کو ملک کا وفادار قرار نہیں دیتے۔ فرحت اللہ بابر نے مزید کہا کہ حب الوطنی پر کسی کی اجارہ داری نہیں۔
Bilawal has sent minister prisons to visit Alamzeb Mehsud #PTM, will provide him a lawyer to be paid by Bilawal. Thank you Bilawal. Courageous move to expose elements that want to create impression that Sindh govt thinks of PTM as unpatriotic. Patriotism not monopoly of anyone.
— Farhatullah Babar (@FarhatullahB) January 21, 2019
انہوں نے وضاحت کرتے کہا ہے کہ عالم زیب محسود کی گرفتاری کے ذمہ دار وزیر اعلیٰ سندھ نہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس کیس میں پولیس سول حکومت کے ماتحت نہیں۔ فرحت اللہ بابر نے مطالبہ کیا ہے کہ پولیس کو غیر سیاسی اور غیر فوجی کیا جائے۔ تاہم انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ یہ مطالبہ انہوں نے کس سے کیا ہے۔
اس سے قبل بھی پشتون تحفظ تحریک کے سربراہ منظور پشتین سمیت دیگر رہنماؤں پر کراچی میں کئی مقدمات قائم ہیں۔ کچھ عرصہ قبل منظور پشتین کی سندھ آمد پر بھی محکمہ داخلہ سندھ نے پابندی عائد کردی تھی تاہم پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت پر شدید تنقید کے بعد یہ فیصلہ چند ہی گھنٹوں بعد واپس لے لیا گیا تھا۔