ریمنڈ ڈیوس کی جلد رہائی کی توقع؟

  • ندیم یعقوب

ریمنڈ ڈیوس کی جلد رہائی کی توقع؟

پاکستان میں امریکی دفتر خارجہ کے اہلکار ریٕمنڈ ڈیوس کی جنوری میں گرفتاری کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات بیشتر مبصرین کے مطابق سرد مہری کا شکار ہیں۔ اور دونوں ممالک اپنی تمام تر کوششوں کے باوجودبظاہرابھی اس مسلے کا حل تلاش کرنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔تاہم وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران امریکی انتظامیہ کی ایک اعلیٰ اہلکار کا کہنا تھا کہ وہ ریمنڈ ڈیوس کی جلد رہائی کی توقع رکھتی ہیں۔

جنوری کے آخر میں جب امریکی دفتر خارجہ کے ایک اہلکار ریٕمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں لاہور میں دو پاکستانی قتل ہوئے تو کسی کو بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ معاملہ اتنا طول پکڑ لے گا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ اور اس کے اہم اتحادی کے درمیان دوریاں انتی بڑھ جائیں گی۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے امریکہ کی بین الاقوامی امور کےلئے نائب وزیر خارجہ ماریا اوٹیرونے امید ظاہر کی ہے کہ یہ معاملہ جلد حل کر لیا جائے گا۔

ان کا کہناتھا کہ اس واقعہ سے دونوں ممالک کے تعلقات متاثر ہوئے ہیں۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کو جلد رہا کر دیا جائے گا۔ ہمیں امید ہے کہ اس مسلے کو حل کرنے کے لئے کوئی راستہ نکال لیا جائے گا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پھر سے اسی سطع پر بحال ہو سکیں جو پچھلے کچھ برسوں سے تھے۔

امریکی اور پاکستانی حکام یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کے واقعہ کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی آئی ہے۔ امریکی حکام بارہا اصرار کر چکے ہیں کہ اسے سفارتی استثنیٰ حاصل ہے مگر پاکستان کا موقف ہے کہ اس معاملے کا فیصلہ پاکستان کی عدالتیں کریں گی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک ماہ سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود ابھی تک امریکی اہلکار پر فرد جرم عائد نہیں کیا گیا۔ واشنگٹن میں قدامت پسند تھنک ٹینک دی ہیریٹیج فاؤنڈیشن سے منسلک جنوبی ایشیائی امور کی ماہر لیسا کرٹس کہتی ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کی اور بھی کئی وجوہات ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں اس معاملے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے حساس اداروں کے درمیان تعلقات میں تناؤ بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک امریکہ کا پاکستان میں زیادہ جاسوس تعینات کر نا ہے۔ پاکستان کی جانب سےعدم تعاون کے تاثر کے باعث امریکہ نے اکیلے ہی دہشت گردوں کے خلاف کام شروع کر نے کی کوشش کی۔ تاہم پاکستان نے ا س کی پر زور مزاحمت کی ہے۔ مگر یہ ضروری ہے کہ دونوں ممالک یکساں احداف متعین کریں اور ان کے حصول کے لیے ملکر کام کریں۔

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اس واقعے اور اس کے بعد امریکہ کی جانب سے پاکستانی حکومت پر غیر ضروری دباؤ کی وجہ سے پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات کو ہوا ملی ہے جس کی وجہ سے یہ معاملہ اتنی پیچیدگی اختیار کر گیا ہے۔امریکہ کے سابق نائب وزیر خارجہ کارل انڈرفرتھ کا کہنا ہے کہ پاکستان کا اس معاملے پر سوال اٹھانا غیر ٕمناسب نہیں تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اس مسلے پر پاکستان کے جائز سوالات تھے اور امریکہ سے ان کے جوابات مانگنا مناسب تھا۔ اس معاملے پر عدالتی کارروائی جاری ہے اور ہمیں دیکھنا ہے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک کو اس مشکل وقت میں ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ جو کچھ افغانستان میں ہورہا ہے اس کے لئے امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعاون بے حد اہم ہے۔ مجھے امید ہے کہ دونوں ممالک جلد تعلقات بحال کر لیں گے۔

خطے میں اپنے اپنے مفادات کے پیش نظر دونوں ممالک چاہیں گے کہ اس معاملے کا جلد کوئی حل نکالا جائے مگر دونوں فی الحال اپنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹتے دکھائی نہیں دیتے۔ امریکی انتظامیہ اور ماہرین توقع رکھتے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ جلد حل ہو تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان پہلے جیسے تعلقات بحال ہو ں جو خطے میں استحکام کے لیے بے حد اہم ہیں ۔