پنجاب میں نمونیا سے رواں برس 300 سے زائد اموات؛ مرض بڑھنے کی وجہ کیا ہے؟

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں نمونیہ کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جب حکام کے مطابق رواں برس اب تک نمونیہ سے 300 سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔

صوبے میں اب تک 18 ہزار 804 کیسز سامنے آئے ہیں۔ صرف لاہور شہر میں ایک روز کے دوران 178 نئے کیسز سامنے آئے ہیں جب کہ شہر میں رواں برس 58 ہلاکتیں اور تین ہزار 520 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

یہ اعداد و شمار ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب پنجاب میں حالیہ دنوں میں سردی کی شدت میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔ میدانی علاقوں میں خشک سردی اور اسموگ کی وجہ سے امراض میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔

کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیوسٹی لاہور میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر صومیہ اقتدار سمجھتی ہیں کہ رواں سال پنجاب میں نمونیہ کی مختلف وجوہات ہیں جن میں بیکٹریا، وائرل انفیکشن اور کووڈ-19 کی اقسام بھی شامل ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ رواں سال پنجاب میں جاری طویل خشک سردی اور ماحولیاتی آلودگی نمونیا کے کیسز میں اضافے کی بڑی وجہ ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ نمونیا کا شکار زیادہ تر چھوٹے بچے، 65 سال سے زائد عمر، پہلے سے بیمار افراد یا ایسے افراد جو پہلے سے کسی سانس کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ایسے افراد میں انفیکشن لگنے اور اُس کے خطرناک ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ اِس مرتبہ نمونیا کے کیسز بار بار اور بیماری کی شرح میں بڑھے ہوئے آ رہے ہیں جس کے باعث انفلوئنزا، ریسپریٹری وائرل سسٹم، وائرل نمونیا، کووڈ اور بیکٹریل نمونیا کے کیسوں کی شرح زیادہ ہے۔

محکمہ صحت پنجاب میں تعینات ایڈیشنل سیکریٹری ڈاکٹر محمد یونس بتاتے ہیں کہ حکومت صوبے میں بڑھتے ہوئے نمونیا کے کیسوں کی روک تھام کے لیے تین طرح سے کام کر رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اول حکومت تمام نوزائیدہ بچوں اور چھوٹی عمر کے بچوں کو مفت حفاظتی ٹیکہ جات لگاتی ہے یعنی مختلف ویکسین لگاتی ہے جس میں نمونیا بھی آتا ہے۔

دوم حکومت صوبے کے تمام چھوٹے بڑے سرکاری اسپتالوں میں نمونیا سے بچاو کی ویکسین مفت اور وافر مقدار میں فراہم کر رہی ہے۔ سوم حکومت نے صوبے کے تمام چھوٹے بڑے اسپتالوں میں بچوں کے ڈاکٹروں کی سیٹیں بڑھائی ہوئی ہیں تاکہ زیادہ مریضوں کے سبب ڈاکٹروں پر زیادہ دباؤ نہ آئے۔

اُن کا کہنا تھا اِن دو عوامل کے ساتھ چوں کہ بچوں کی قوتِ مداقعت کم ہوتی ہے، لہذا اُن میں کیسوں کی شرح زیادہ ہے۔

اُنہوں نے مزید بتایا کہ رواں سردیوں کے سیزن میں جو نمونیا کے مریضوں کی تعداد اسپتالوں میں آئی ہے، اُس کی چار سے پانچ فی صد اموات ہوئیں ہیں۔

ڈاکٹر صومیہ اقتدار کے بقول اب موسم کچھ تبدیل ہوا ہے، لہذٰا نئے کیسز کی شرح میں کمی آ رہی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ نمونیا صرف سرد موسم میں ہی ہوتا ہے۔ یہ مرض موسمِ گرما میں بھی ہو سکتا ہے۔ موسمِ سرما میں اِس کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ جب کسی کو ایک مرتبہ یہ مرض لاحق ہو جاتا ہے تو وائرس اپنا دورانیہ پورا کرتا ہے اور اُس کے بعد ہی ختم ہوتا ہے۔

ڈاکٹر محمد یونس کی رائے میں نمونیا کے مرض کی شرح کو قابو میں رکھنے کے لیے طبی عملے کے ساتھ ساتھ والدین کا بھی اہم کردار ہے۔ صرف محکمہ صحت اِس بیماری پر قابو نہیں پا سکتا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایک عام تاثر یہی ہے کہ جب بھی کوئی بچہ یا بڑا بیمار ہوتا ہے تو اُسے سب سے پہلے محلے کے کسی ڈاکٹر کو دکھایا جاتا ہے۔ اُس کے بعد کسی اور کو جب صورتِ حال بگڑ جاتی ہے تو بچے کو کسی مناسب جگہ دکھایا جاتا ہے۔

نمونیا کی علامات اور بچاؤ

ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ نمونیا کی علامات میں تیز بخار، بلغم، کھانسی، تھکاوٹ اور سانس لینے میں دشواری اور اس کے ساتھ سینے میں درد بھی شامل ہے۔

ماہرین کے مطابق نمونیا سے پانچ سال سے کم عمر بچے اور وہ معمر افراد متاثر ہوئے ہیں جو شوگر، بلڈ پریشر اور دمے سے متاثر ہیں یا وہ لوگ جن کے پھیپھڑے کووڈ کے مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے متاثر ہوئے۔