ڈاکٹر شکیل آفریدی کیس، عدالتی کارروائی ایک بار پھر تعطل کا شکار

فائل

ڈاکٹر شکیل آفریدی کے وکیل، قمر ندیم نے ’ڈیوہ ریڈیو‘ سے بات کرتے ہوئے، کہا ہے کہ ایک بار پھر عدالت میں سرکاری وکیل کی غیر حاضری کی وجہ سے سماعت تعطل کا شکار ہوئی اور عدالت نے اگلے سال کی جنوری کی دوسری تاریخ دے رکھی ہے

شکیل آفریدی کو ایبٹ آباد میں القائدہ کے روپوش سرغنہ اسامہ بن لادن کی امریکی اسپیشل فورسز کی کارروائی میں ہلاکت کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جن پر الزام ہے کہ انھوں نے بن لادن کی نشاندہی کرنے میں امریکی خفیہ ایجنسی کی معاونت کی۔

تاہم، بعدازاں، ایک شدت پسند گروپ سے تعلق کے جرم میں انھیں33 سال قید کی سزا سنائی گئی، جس کے خلاف شکیل آفریدی نے اپیل کر رکھی ہے؛ جو قبائلی علاقوں کے لئے بننے والی عدالت یا ’فاٹا ٹربیونل کورٹ‘ میں زیر سماعت ہے۔

ڈاکٹر آفریدی کے مقدمے کی پیروی اب قمر ندیم کر رہے ہیں، جن کے لیے بتایا جاتا ہے کہ وہ گزشتہ 34 ماہ سے اپنے موکل سے نہیں مل سکے۔ ندیم سے پہلے ڈاکٹر آفریدی کی وکالت کرنے والے سمیع اللہ آفریدی اس مقدمے سے علیحدہ ہو کر سلامتی کے خدشات کے باعث دبئی منتقل ہوگئے تھے۔ وطن واپس آنے پر، مارچ 2015 میں انھیں فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا گیا؛ جس کی ذمہ داری ’جنداللہ‘ اور ’جماعت الاحرار‘ نامی دہشت گرد گروپوں نے قبول کی تھی۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی کے وکیل، قمر ندیم نے ’ڈیوہ ریڈیو‘ سے بات کرتے ہوئے، کہا ہے کہ ایک بار پھر عدالت میں سرکاری وکیل کی غیر حاضری کی وجہ سے سماعت تعطل کا شکار ہوئی اور عدالت نے اگلے سال کی جنوری کی دوسری تاریخ دے رکھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے دوبارہ نوٹس جاری کیا ہے کہ کیس کی سماعت کے لئے سرکاری وکیل پیش ہوں۔ قمر ندیم نے کہا ہے کہ سرکاری وکیل کی غیر حاضری کی وجہ سے یہ سلسلہ جون 2014ء سے اسی طرح چلا آ رہا ہے۔

ستمبر کے مہینےمیں، پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خان خاقان عباسی امریکہ کے سرکاری دورے پر آئے۔ اس وقت ان سے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے حوالے سے سوال پوچھا گیا کہ ان کو کس وجہ سے قید میں ڈالا گیا ہے، جس پر ان کا کہنا تھا کہ اسامہ کی موجودگی کے حوالے سے پاکستان کے پاس کوئی معلومات نہیں تھی۔ اُس وقت ڈاکٹر شکیل آفریدی کے پاس معلومات موجود تھی تو ان کو چاہئے تھا کہ یہی معلومات پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے ساتھ شیئر کرتے۔ پاکستان میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی طرف سے چلائی جانے والی جعلی ویکسینیشن مہم کی وجہ سے ملک میں انسداد پولیو کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

یاد رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گزشتہ نومبر میں انتخابات میں کامیابی سے ایسی امیدیں پیدا ہوئی تھیں کہ ڈاکٹر آفریدی سے متعلق معاملات شاید مثبت رخ اختیار کریں۔ ٹرمپ اپنی صدارتی مہم کے دوران ڈاکٹر آفریدی سے پاکستان کے سلوک پر خاصی تنقید کرتے رہے اور ’فاکس نیوز‘ سے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ آفریدی کو ’’دو منٹ" میں رہا کروا لیں گے۔