سائنس اور ٹیکنا لوجی: سوشل میڈیا، سیاسی انقلاب میں پیش پیش

AP

روایتی میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی اور کاروبار بھی معلومات کے تبادلے اور عوام تک پہنچنے کے لیے آج بڑی تعداد میں فیس بک اور ٹوئٹر جیسے جدید میڈیا کا سہارا لے رہے ہیں

سوشل میڈیا کی ویب سائٹس، جیسے فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب، دنیا کے کئی ممالک میں سیاسی انقلاب کی کوششوں میں اہم کردار کررہی ہیں۔

تبدیلی کے لیے کوشاں عوام ایران، چین اور عرب ممالک کے مختلف حصوں میں ایک دوسرے سےرابطہ اور باہر کی دنیا سے اپنا تعلق قائم کرنے کے لیے انہی ویب سائٹس کا سہارا لے رہے ہیں۔

لیکن، جدید میڈیا صرف ایک ملک کی قیادت کی خلاف آواز اٹھانے میں ہی مددگار ثابت نہیں ہورہا۔ آج، سیاست دان اِنھیں اپنا مؤقف اخبار اور ٹیلیویژن کےنامہ نگار کے بجائے خود عوام تک پہنچانے کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔اِس کی تازہ ترین مثال ہے صدر براک اوباما کی جانب سے امریکی معیشت کی صورتِ حال پر ٹوئٹر کے ذریعے عوام کے ساتھ ٹاؤن ہالز طرز کی ایک میٹنگ۔

اِس سے پہلے، صدر اوباما فیس بک اور یوٹیوب کے ذریعے بھی امریکی عوام سے رابطہ کرچکے ہیں، لیکن دیگرمیڈیا کی بنسبت ٹوئٹر پر پیغام میں صرف 140حروف استعمال کیے جاسکتے ہیں اور اتنے کم الفاظ میں اپنی بات کہنا آسان نہیں۔ اِس لیے صدر براک اوباما نے ٹوئٹر کے ساتھ گفتگو کا سہارا بھی لیا۔ اُن کے الفاظ میں،’ آپ کو مختصراً بتاتا چلوں کہ قرضوں کی حد میں اضافے کے مسئلے سے اور کیا کچھ منسلک ہے‘۔

سیاسی تجزیہ کار کنگ گولڈز اسٹین کا کہنا تھا کہ جدید میڈیا میں حروف کی قید صدر براک اوباما جیسے سیاستدانوں کے لیے کچھ مشکلات بھی کھڑی کرتی ہیں۔اُن کے الفاظ میں، ’ صدر براک اوباما نےجدید میڈیا کوواضح طور پر اپنایا ہے۔لیکن دوسری جانب ، وہ دیگر سیاستدانوں کی طرح میڈیا کے لیے تیار کیے گئے چھوٹے جملوں میں بات نہیں کرتے۔ٹوئٹر اِن دونوں کا میلاپ ہے‘۔

دوسری طرف، ٹوئٹر ایسے لوگوں کے لیے بھی ہے جو زیادہ دیر تک ایک ہی چیز پر توجہ نہیں دے سکتے اور ایسی سیاست کےلیےہے جِس میں کم لفظوں میں بات کی جائے۔

تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ خبروں میں دلچسپی لینےوالوں کو نہ صرف جدید بلکہ روایتی میڈیا پر بھی توجہ دینی چاہیئے۔ اُن کے الفاظ میں:’ میرا یقین ہے کہ روایتی میڈیا اب بھی اہم ہے۔ انٹرنیٹ پر ملنے والی زیادہ تر معلومات کی بنیاد روایتی میڈیا ہی ہوتا ہے‘۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ، روایتی میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی اور کاروبار بھی معلومات کے تبادلے اور عوام تک پہنچنے کے لیے آج بڑی تعداد میں فیس بک اور ٹوئٹر جیسے جدید میڈیا کا سہارا لے رہے ہیں۔

آڈیو رپورٹ سنیئے: