پاکستان کا تین اعشاریہ نو فی صد معاشی شرح نمو کا دعویٰ، حقیقت کیا ہے؟

فائل فوٹو

پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ رواں سال معاشی شرح نمو 3.9 فیصد رہی جو کہ کرونا وائرس کی عالمی وباء کے دور میں ایک بڑی کامیابی ہے۔

حکومت معاشی اشاریوں کے مثبت ہونے کو بڑی پیش رفت کے طور پر بیان کر رہی ہے۔ تاہم حزب اختلاف حکومت کے ان معاشی اعداد و شمار کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔

اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت کے پیش کردہ اعداد و شمار حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے کیونکہ کرونا وائرس کے سبب عالمی کساد بازاری کے دور میں ملکی معیشت میں بہتری ممکن نہیں ہے۔

رواں مالی سال کے اختتام سے قبل وفاقی سطح پر کام کرنے والی نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے ملکی معیشت کی شرح نمو کے عبوری اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں۔

ان حکومتی اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال میں معیشت 3.9 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہی ہے جب کہ گزشتہ سال پاکستان کی معیشت منفی رہی تھی۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان۔ فائل فوٹو

حکومت کی جانب سے معاشی ترقی کے یہ دعوے ایسے وقت میں کیے جا رہے ہیں جب حزب اختلاف حکومتی معاشی پالیسیوں کو ناکام قرار دے رہی ہے۔

حکومت کے جاری کردہ معاشی ترقی کے تازہ اعداد و شمار نے نہ صرف ملکی اداروں کے اندازوں بلکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے تخمینوں کو بھی غلط ثابت کیا ہے۔

حکومت نے مالی سال کے شروع میں مجموعی قومی پیداوار کا ہدف 2.1 فیصد مقرر کیا تھا۔

رواں ہفتے ہی پاکستان کے مرکزی بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مالی سال 2020/21 کی دوسری سہ ماہی میں معاشی بحالی کے اثرات نمایاں ہونے لگے ہیں اور کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسی نیشن کی کامیاب مہم معاشی بحالی کو مزید بہتر بنائے گی۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے معیشت کے حوالے سے دوسری سہ ماہی رپورٹ میں اس عرصہ کے دوران معاشی بحالی کی مضبوطی کو اجاگر کیا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کرونا وائرس نے پاکستانی معیشت پر کیا اثرات چھوڑے؟

رپورٹ کے مطابق مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں صنعتی سرگرمیاں بڑھی ہیں، زرعی اور خدمات کے شعبے ترقی دکھا رہے ہیں۔

تاہم بینک کا کہنا ہے کہ قرضوں کی واپسی کے بوجھ، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور درآمدات کے بڑھتے ہوئے دباؤ پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

معاشی ماہرین حکومت کے 3.9 فیصد کی شرح نمو کے اعداد و شمار کو غیر حقیقی قرار دیتے ہیں۔

اقتصادی ماہرین کیا کہتے ہیں؟

ماہر معاشی امور ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں ملکی معیشت میں بہتری آئی ہے تاہم حکومت کی طرف سے پیش کردہ اعداد و شمار گزشتہ سال کی منفی شرح نمو کی بنیاد پر بڑے دکھائی دے رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ رواں سال میں برآمدات اور ترسیلات زر میں گزشتہ سال کی نسبت بہتری آئی ہے اور کاروباری افراد میں اعتماد پیدا ہوا ہے۔

پاکستان کی برآمدات میں ٹیکسٹائل کا ایک بڑا حصہ ہے۔

تاہم اشفاق حسن کہتے ہیں کہ حکومت نے آئندہ سال کے لئے معاشی ترقی کا جو 5 فیصد ہدف مقرر کیا ہے وہ حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ ان کے بقول گزشتہ سال معاشی نمو منفی ہونے کے سبب رواں سال 3.9 فیصد اضافہ دکھایا جارہا ہے اور آئندہ سال 5 فیصد کا ہدف حاصل نہ ہونے پر حزب اختلاف حکومت کو ہدف تنقید بنائے گی۔

موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے معاشی شرح نمو میں کمی دیکھی گئی اور گزشتہ سال یہ شرح منفی چار فیصد تک گر گئی جس کی ایک وجہ کرونا وائرس سے معاشی سرگرمیوں میں تعطل اور سست روی بتائی گئی۔

ماہر معاشی امور فرخ سلیم نے حکومت کے پیش کردہ معاشی اعداد و شمار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک ماہ قبل حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کو مڈ ٹرم بجٹری فریم ورک پیش کیا گیا جس میں حکومت نے خود پیش گوئی کی کہ شرح نمو 2.9 فیصد رہنے کی توقع ہے تو پھر ایک ماہ میں ایسی کیا تبدیلی واقع ہو گئی کہ مجموعی ترقی 2.9 سے بڑھ کر 3.9 فیصد تک پہنچ گئی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ حکومت خود کہہ رہی ہے کہ بجلی اور گیس کی کھپت میں 22 فیصد کمی واقع ہوئی ہے تو ایسے میں مجموعی ترقی کی شرح کے اعداد و شمار پر سوالات جائز ہیں۔

فرخ سلیم کہتے ہیں کہ بیرونی سرمایہ کار معیشت کے اعداد و شمار کو بہت غور سے دیکھتے ہیں اور حکومت کی جانب سے انہیں مشکوک بنانے کا کوئی بھی عمل معیشت اور ملک کے مفاد میں بہتر نہیں ہو گا۔