چینی گوہر نایاب ہوگئی، بحران میں مزید شدت

پاکستان میں چینی کے بحران میں کمی کے بجائے روز بہ روزاضافہ ہوتا جا رہا ہے اور مختلف شہروں میں دو روز کے دوران فی کلو چینی کی قیمت15 سے 20 روپے اضافے کے ساتھ ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے ۔ کراچی میں فی کلو چینی کی قیمت 105، حیدر آباد ،میر پور خاص اور نواب شاہ میں سو اور سکھر میں ایک سو پانچ روپے تک جا پہنچی۔ اسی طرح خیبر ایجنسی میں فی کلو چینی کی قیمت 125 ، بنوں میں 120 ،پشاور اور گرد نواح میں ایک سو پانچ ،مردان اور صوابی میں ایک سو دس ، نوشہرہ میں ایک سو پندرہ ، بنوں میں ایک سو بیس، چار سدہ میں نوے جبکہ ایبٹ آباد اور مانسہرہ میں نوے روپے کے حساب سے فروخت ہو رہی ہے۔

اسلام آباد اور راولپنڈی میں ایک سو پندرہ ، ملتان میں ایک سو پانچ ، فیصل آباد میں ایک سو دس ،گجرانوالہ میں سو، جہلم ایک سو پانچ، ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک سو پندرہ ، خوشاب میں ایک سو دس روپے فی کلو چینی دستیاب ہے ۔ بلوچستان کے شہر کوئٹہ سمیت دیگر شہروں میں بھی چینی کی شدید قلت ہے اور صارفین مہنگے داموں چینی کی خرید کیلئے مارے مارے پھر رہے ہیں ۔

دوسری جانب عوام کوریلیف فراہم کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے قائم کردہ اسٹوروں پر بھی چینی کی قیمتوں میں دس روپے فی کلو اضافے کا اعلان کر دیا گیا ہے ۔ یوٹیلٹی اسٹورز کارپویشن آف پاکستان کے ایم ڈی عارف حسین نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا ۔ اس طرح یوٹیلٹی اسٹورز پر چینی کی فی کلو قیمت 65 روپے ہو گئی ہے ۔ ان کے مطابق چینی کے بحران پر قابو پانے کے لئے اسٹورز پر اس کی مقدار دگنی کر دی جائے گی اورماہانہ اسی ہزار سے ایک لاکھ ٹن چینی فروخت کی جائے گی ۔ دوسری جانب بیشتر شہروں میں لگائے جانے والے ہفتہ وار بازاروں سے بھی چینی غائب ہے ۔

چینی کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مختلف شہروں کے حلوائیوں نے بھی مٹھائی کی قیمتوں میں اضافے کی دھمکی دے دی ہے۔ حلوائیوں کا کہنا ہے کہ چینی میں بیس سے پچیس روپے کا اضافہ نا قابل برداشت ہے اور اگر اسی قیمت پر چینی کی خریداری کرکے کاروبار کرنا پڑا تو یہ گھاٹے کا سودا ہوگا لہذا اگر اگلے چند روز میں قیمتوں میں بہتری نہ آئی تو وہ بقر عید سے قبل مٹھائی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیں گے ۔

شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے وی او اے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ چینی کا بحران رمضان سے قبل شروع ہوا تھا اور اب رمضان ختم ہوئے بھی دو ماہ بیت چکے ہیں لیکن چینی کا بحران تاحال جاری ہے۔ صارفین نے شکایت کی کہ چینی کے حصول کے لئے صبح آٹھ بجے سے قطار میں لگنا پڑتا ہے اور پندرہ سے بیس افراد کو تھیلے ملتے ہیں جب کہ باقی کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے ۔

ساٹھ سالہ صادق حسین کے مطابق وہ پھلوں کا ٹھیلا لگاتا ہے اور دو سے ڈھائی سو روپے روزانہ اجرت کماتا ہے تاہم گزشتہ کئی دنوں سے اس کے گھر میں چینی نہیں اس لئے چینی خریدنے کے لئے آج چھٹی کرنی پڑی لیکن چار گھنٹوں سے قطار میں لگنے کے باوجود بھی وہ چینی حاصل نہیں کر سکا ۔

ایک اور خریدار دلدار خان کا کہنا ہے کہ چینی کی ملیں صرف ان لوگوں کی ہیں جو حکومت میں ہیں۔ اگر حکومت ذخیرہ اندوزوں، مافیا اور دیگر چینی کے ڈیلروں پر قابو نہیں پا سکتی تواس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مسائل کے حل کے لئے اس کے پاس کوئی مربوط حکمت عملی نہیں ۔

اس موقع پہ متعدد افراد کا کہنا تھا کہ چینی کا بائیکاٹ ہی اس بحران پر قابو پانے کا واحد حل ہے تاہم بعض شہریوں نے اس تجویز کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاشرے میں بے حسی کا عالم یہ ہے کہ چینی کا استعمال باعث افتخار بنتا جا رہا ہے ۔

شوگر ڈیلرز کا کہنا ہے کہ چند افراد کو مالی فائدہ پہنچانے کیلئے چینی کی قیمت جان بوجھ کر بڑھائی جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چینی کی ممکنہ قلت کی نشاندہی کرنے کے باوجود متعلقہ وزارت نے چینی درآمد نہیں کی۔

ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ جب عالمی مارکیٹ میں چینی سستی تھی تو حکومت پاکستان کو درآمدی ٹینڈر جاری کرنے چاہئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ چھ ماہ پہلے ہی چینی کے بحران کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا مگر متعلقہ حکام خاموش رہے۔

پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے مرکزی چیئرمین جاوید کیانی نے چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور بحران کا ذمہ دار ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کو قرار دیا ۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ سیلاب کے باعث کرشنگ سیزن بروقت شروع نہیں ہوسکا اور عید کے بعد شوگرملز اپنی پیداوار شروع کردیں گی جبکہ چینی کا بحران آئندہ چند روز میں ختم ہوجائے گا۔

وفاقی وزیر تجارت امین فہیم نے کراچی میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اس تمام تر صورتحال کا ذمہ دار صوبائی حکومتوں کو قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے مقرر کردہ چینی کا کوٹہ اٹھانے میں تاخیر کررہے ہیں۔ ان کے مطابق ملک میں چینی کا اسٹاک مستحکم ہے۔ٹی سی پی کے پاس تین لاکھ ٹن چینی موجود ہے جو ای سی سی کی ہدایت پر اوپن مارکیٹ میں نیلامی کے ذریعے فروخت کی جارہی ہے۔

ادھر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا کہنا ہے کہ چینی کی قیمتیں کنٹرول کرنا وفاقی حکومت کا کام ہے اور وزیر اعظم اس کا نوٹس لیں ۔

کچھ روز قبل وفاقی وزیر خوراک نذر محمد گوندل چینی کا استعمال عیاشی قرار دے چکے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ چینی کا استعمال اتنا ضروری نہیں کہ انسان اس کے بغیر زندہ نہ رہ سکے۔