ادارتی نوٹ: یہ رپورٹ گزشتہ برس ویٹرنز ڈے کے موقع پر پہلی بار پبلش کی گئی تھی۔
امریکہ میں ہر سال 11 نومبر کو 'ویٹرنز ڈے' یعنی سابق فوجیوں کا دن منایا جاتا ہے۔ ایک جانب جہاں یہ روز سابق فوجیوں کی خدمات یاد دلاتا ہے وہیں یہ یاد دلاتا ہے کہ امریکہ میں سابق فوجیوں کی بڑی تعداد غذائی عدم تحفظ، بیروزگاری، بے گھری اور مختلف ذہنی امراض کے سبب نجی اور سرکاری اداروں کی امداد اور اس سے جڑے امکانات کے روشن ہونے کی منتظر ہے۔
امریکی محکمہ محنت کی 2021ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ملک میں سال 2020ء میں سابق فوجیوں کی تعداد ایک کروڑ پچاسی لاکھ تھی۔
سابق فوجیوں میں خودکشی ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر امریکی حکومت اور ویٹرنز افیئرز کا ادارہ کئی برسوں سے قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے۔ خودکشی کا یہ رجحان ستمبر گیارہ کے حملوں کے بعد امریکی جنگوں کے دوران کئی گنا بڑھا ہے۔
امریکی وائٹ ہاؤس سے جاری تازہ اعداد و شمار کے مطابق 2018 کے بعد سے پینسٹھ ہزار سابق فوجی خودکشی کر چکے ہیں ان میں اکثریت نے آتشیں اسلحے یا ہتھیار کے ذریعے خود اپنی جان لی۔ یہ تعداد ویتنام جنگ اور عراق-افغانستان جنگ میں کل ملا کر امریکی فوجی جانوں کے نقصان سے بھی زیادہ ہے۔
امریکی افواج پر تحقیق کرنے والے ادارے، رینڈکارپوریشن کے مطابق سابق فوجیوں میں خودکشی کا رجحان عام شہریوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ سال 2018ء کے اعداد و شمار کے مطابق سابق فوجیوں میں ہر ایک لاکھ میں سے بتیس فوجیوں نےخودکشی کی جبکہ عام شہریوں میں یہ رجحان 17.2 اموات فی ایک لاکھ افراد ہے۔
ماہرین کے مطابق، سابق فوجیوں میں خودکشی کی کوئی ایک وجہ بیان نہیں کی جاسکتی۔ یہ افراد سروس کے بعد کئی مسائل سے دوچار دکھائی دیتے ہیں۔ 2001ء کے بعد سے امریکی افواج کا حصہ رہنے والے چالیس فی صد ویٹرنز سروس کے دوران معذوری کا شکار ہوئے۔
فوج کی ملازمت سے کنارہ کش ہونے والے افراد کو دوبارہ شہری زندگی کے دھارے میں لانا ایک بڑا چیلنج ہے۔ سابق فوجیوں کی اک بڑی تعداد بے روزگاری، بھوک اور سر پر چھت نہ ہونے جیسے مسائل کا سامنا کرتی ہے۔ مالی مسائل اور تنگ دستی یقینی طور پر نا آسودگی اور ذہنی الجھنوں کا باعث بنتی ہے۔
ذہنی مسائل کا شکار سابق فوجیوں میں خودکشی کا رجحان دوسروں کی نسبت زیادہ دیکھا گیا ہے۔ جنگ سے وطن واپسی پر کئی فوجی PTSD یعنی کسی صدمے کی وجہ سے ذہنی اور جذباتی تناؤ کا شکار پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاؤہ شزوفرینیا، بائی پولر ڈس آرڈر، ڈپریشن اور اینگزائٹی وہ دیگر ذہنی بیماریاں ہیں جن سے سابق فوجی متاثر نظر آتے ہیں۔
بوسٹن یونیورسٹی کے تحقیق دان تھامس بین سووٹ کی اک تحقیق کے مطابق کئی فوجیوں کو جنگوں میں IED کے استعمال سے دماغی چوٹیں پہنچیں جب کہ جب کہ کئی جنسی ٹراما کا شکار پائے گئے۔ ایسی صورتِ حال میں آتشیں اسلحے کا ان کی دسترس میں ہونا کسی کمزور لمحے میں ان کی جانوں کے لیےنقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
سابق فوجیوں میں تنگ دستی اور خودکشیوں کے بڑھتے رجحان کو دیکھتے ہوئے سابق امریکی خاتون اول مشیل اوبامہ نے اپنے تئیں انہیں قومی دھارے میں لانے کی کوشش کی تھی۔
سال 2013ء میں انہوں نے ایک بزنس راؤنڈ ٹیبل میں سابق فوجیوں کی حالت زار بیان کرتے ہوئے کاروباری افراد سے انہیں ملازمتیں فراہم کرنے کی اپیل کی تھی۔
مشیل اوباما کی اس بات نے کہ روزانہ بائیس سابق فوجی اپنی جانیں لے لیتے ہیں، امریکی سرمایہ کار سٹیو شوارزمین کے دل پر اثر کیا اور گھر پہنچنے سے پہلے انہوں نے یہ تہیّہ کیا کہ اگلے پانچ سال میں وہ اپنے اور پارٹنر اداروں میں پچاس ہزار ویٹرنز بھرتی کریں گے۔ سٹیو یہ ہدف چار سال کے اندر حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
نیوز ویب سائٹ، ایگزییوس کے مطابق اس کے بعد 2017ء سے موجودہ سال ویٹرنز ڈے تک بلیک سٹون گروپ کے سی ای او سٹیو شوارزمین نے سابق فوجیوں کے لئے مزید پچاس ہزار ملازمتوں کے مواقع پیدا کئے۔
ماہرین کے مطابق، ملازمتیں نہ صرف ویٹرنز کے مالی مسائل کا حل ہیں بلکہ اس کے ذریعے ملنے والی میڈیکل انشورنس یہ بات بھی ممکن بناتی ہے کہ ان کے ذہنی مسائل اور بیماریوں کا علاج بغیر کسی تعطل کے جاری رہ سکے۔