ایک ہی دن الیکشن کرانے کا کیس: سماعت میں کب کیا ہوا؟

فائل فوٹو

عام انتخابات ایک ہی دن کروانے کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دائر کرنے والے وکیل شاہ خاور کی درخواست پر عدالت نے سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی تجویز دی جس میں حکمراں اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) نے تو مذاکرات جاری رکھنے اور بات چیت پر زور دیا لیکن پاکستان تحریک انصاف نے اب تک ہونے والی بات چیت کو وقت کا ضیاع قرار دیا اور مزید بات چیت سے انکار کر دیا۔

جمعے کو ہونے والی سماعت کے لیے پی ڈی ایم کی طرف سے خواجہ سعد رفیق کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔ پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری نے اپنی جماعت کی نمائندگی کی۔

سماعت سے پہلے سعد رفیق اور فواد چوہدری کافی دیر تک باہر کھڑے بات چیت کرتے رہے اور بعد میں کمرۂ عدالت میں شاہ محمود قریشی بھی ان کی گفتگو میں شریک ہوگئے۔

سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل اپنی نشست سے اُٹھ کر روسٹرم پر آئے اور بتایا کہ حکومت نے اس کیس میں اپنا جواب جمع کرا دیا ہے۔

فاروق نائیک نے حکومتی جواب کی تفصیل سنانا شروع کی اور ایک موقع پر کہا کہ اگر اسمبلیاں نہ ہوئیں تو بجٹ منظور نہیں ہوسکے گا۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے پر بجٹ کے لیے آئین چار ماہ کا وقت دیتا ہے۔

سماعت کے دوران تین رکنی بینچ میں سے صرف چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بات کی اور ریمارکس بھی دیتے رہے جب کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بالکل خاموش رہے اور کسی بھی بات پر کوئی ریمارکس نہیں دیے۔

SEE ALSO: ایک ہی روز الیکشن کرانے کا کیس: مناسب حکم جاری کریں گے، چیف جسٹس


چیف جسٹس نے عدلیہ کے حوالے سے دبے لفظوں میں پارلیمان میں ہونے والی تقاریر پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ ہماری اور اسمبلی میں ہونے والی گفتگو کا جائزہ لیں جو بات یہاں ہو رہی ہے اس کا لیول دیکھیں۔ کہا گیا کہ ماضی میں عدالت نے آئین کا احترام نہیں کیا۔ ہم نے احترام میں کسی بات کا جواب نہیں دیا۔

پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے 14 مئی کو انتخابات کے حکم پر عمل درآمد کی استدعا کی اور کہا کہ حکومت نے اب تک اس فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر نہیں کی اس لیے اس فیصلے پر اب عمل درآمد ضروری ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے خواجہ سعد رفیق روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے انہیں" خوش آمدید خواجہ سعد رفیق صاحب کہہ کر مخاطب کیا۔" اس پر سعد رفیق نے احترام سے کہا کہ جناب میں وکیل نہیں ہوں اس لیے عدالت میں بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے۔

خواجہ سعد رفیق نے احترام سے عدالت میں بہت سے سخت جملے بھی کہے لیکن ان کے انداز کی وجہ سے ان کی تلخ باتوں پر عدالت نے کوئی جواب نہ دیا۔

خواجہ سعد رفیق نے ایک موقع پر یہ بھی کہا کہ 2017 سے عدالت نے ہمارے ساتھ ناانصافی کی تاہم اس پر عدالت کے ججز نے کوئی ریمارکس نہ دیے۔

سعد رفیق نے سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کے حوالے سے کہا کہ چھوٹے صوبوں کا معاملہ بہت حساس ہے اور ان دونوں اسمبلیوں کو پنجاب کے لیے وقت سے پہلے تحلیل کرنا مشکل کام ہے۔ انہوں نے عدالت کو سیاسی معاملات سے دور رہنے کا بھی مشورہ دیا اور کہا کہ عدالت کو سیاسی معاملات میں الجھانے سے پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اس وقت نہ پہلے والا مارشل لا ہے اور نہ ہی گزشتہ دور کا نقاب پوش مارشل لا، یہ وقت بھی گزر جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ مستقل کوئی بھی عہدے پر نہیں رہتا، چاہے وہ آپ ہوں یا ہم ۔۔ سعد رفیق کی دلچسپ باتوں پر کمرۂ عدالت میں موجود تمام وکلا اور جج صاحبان مسکراتے رہے ۔

ان کی بات ختم ہونے پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ آپ آئین توڑنا نہیں چاہتے، لیکن ترکیہ میں زلزلہ آیا تو وہاں بھی انتخابات ہورہے ہیں، بڑی بڑی جنگوں کے دوران بھی الیکشن ہوتے رہے ہیں۔

اس کے بعد شاہ محمود قریشی آئے لیکن نماز جمعہ کا وقت قریب ہونے کی وجہ سے ان کو بہت کم وقت ملا جس میں انہوں نے اپنی جماعت کا موقف دیا اور کہا کہ حکومت کی طرف سے بہانے تراشے جا رہے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی، اس پر چیف جسٹس نے انہیں ٹوکا اور کہا کہ آئی ایم ایف والا معاملہ نہ ہمیں معلوم ہے اور نہ ہم سننا چاہتے ہیں۔

دورانِ سماعت درخواست گزار وکیل شاہ خاور نے کہا کہ اس وقت جو مذاکرات ہورہے ہیں ان میں شہباز شریف اور عمران خان کو شامل کرنا چاہیے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اس کیس کی سماعت کے دوران دونوں رہنماؤں کو ویڈیو لنک پر لے لیا جائے لیکن عدالت نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم اور عمران خان مصروف لوگ ہیں۔ ان کے نمائندے موجود ہیں اور انہیں ہی بات کرنے دی جائے۔

بعد ازاں عدالت نے اس کیس کے بارے میں مناسب حکم جاری کرنے کا کہہ کر سماعت ختم کردی۔

کمرہ عدالت کے باہر شاہ خاور ایڈوکیٹ نے کہا کہ مذاکرات جاری رکھنا سب کے لیے فائدہ مند ہوتا اور عدالت اس میں شاید وقت بھی دے دیتی لیکن پی ٹی آئی نے صاف انکار کرکے اچھا نہیں کیا۔

اس بارے میں سینئر صحافی راشد حبیب نے تبصرہ کیا کہ عدالت کی اس کیس میں کارروائی مکمل ہو گئی ہےلیکن اب حکومت کے لیے بھی مشکل صورتِ حال ہے کہ وہ تین رکنی بینچ کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست دائر نہیں کر رہی۔

اُن کا کہنا تھا کہ ریویو فائل کرنے کا مطلب کہ وہ تین دو کے بینچ کو تسلیم کر رہی ہے جب کہ حکومت کا موقف ہے کہ وہ چار تین کے فیصلے کو مانتے ہیں لہذا اب عدالت کی طرف سے آنے والا حکم نامہ اہمیت رکھتا ہے۔