شام کیمیائی ہتھیار عالمی نگرانی میں دینے پر آمادہ

فائل

روس کی اس تجویز کے بعد شام پر امریکی حملے کی مخالفت میں اضافہ اور تنازع کے حل کے لیے سفارتی کوششوں میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔
شام کی حکومت نے روس کی اس تجویز کی حمایت کردی ہے جس میں شامی حکومت سے اپنے کیمیائی ہتھیار عالمی نگرانی میں دینے کا کا مطالبہ کیا گیا تھا تاکہ انہیں بتدریج تلف کیا جاسکے۔

شام کے وزیرِاعظم وائل الحلقی نے منگل کو صحافیوں کو بتایا کہ ان کی حکومت نے "شامیوں کی جانوں کے تحفظ" کے لیے روس کی تجویز قبول کرلی ہے۔

روس کی اس تجویز کے بعد شام پر امریکی حملے کی مخالفت میں اضافہ اور تنازع کے حل کے لیے سفارتی کوششوں میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔

امریکہ کے اتحادی یورپی ممالک میں سے شام پر فوجی حملے کی حمایت میں سب سے زیادہ فرانس سرگرم رہا ہے۔

لیکن منگل کو فرانس کے وزیرِ خارجہ لوغاں فیبیوس نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک نئی قرارداد کا مسودہ پیش کرنے کا اعلان کیا ہے جس میں شام میں21 اگست کو ہونے والے کیمیائی حملے کے ذمہ داروں کے خلاف بین الاقوامی عدالت برائے جرائم میں مقدمات چلانے کا مطالبہ کیا جائے گا۔

امریکہ نے اس حملے کا الزام شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت پر عائد کیا ہے لیکن شامی حکومت اور اس کا قریب ترین عالمی اتحادی روس اس الزام کو ماننے سے انکاری ہیں۔

امریکی حکام کے مطابق شام کے دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقے میں کیے جانے والے اس حملے میں 1400 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

فرانس کے نئے اقدام کا اعلان کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ لوغاں فیبیوس کا کہنا تھا کہ شام کے عوام پہلے ہی بہت دکھ اٹھا چکے ہیں اور اب عالمی برادری کو شامی حکومت سے فوری نتائج درکار ہیں۔

لیکن شامی حکومت کے خلاف سلامتی کونسل میں ماضی میں پیش کی جانے والی قراردادوں کو روس اور چین ویٹو کرتے رہے ہیں جس کے باعث شام میں گزشتہ ڈھائی برسوں سے جاری خانہ جنگی کے معاملے پر سلامتی کونسل عملاً کوئی کردار ادا کرنے سے معذور رہی ہے۔

اس سے قبل منگل کو روس کے وزیرِ خارجہ سرجئی لاوروف نے اعلان کیا تھا کہ کیمیائی حملے سے متعلق جاری اختلافات کو دور کرنے کے لیے روسی اور شامی حکام مشترکہ طور پر ایک "ٹھوس" منصوبہ بنا رہے ہیں جسے جلد دیگر ملکوں کو پیش کردیا جائے گا۔

شام کے وزیرِ خارجہ ولید المعلم روس کے دورے پر ہیں جہاں انہوں نے پیر کو اپنے روسی ہم منصب اور دیگر اعلیٰ روسی حکام کے ساتھ ملاقاتیں کی تھیں۔

روسی وزیرِ خارجہ کا کہنا ہے کہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو عالمی نگرانی میں دینے کی تجویز "صرف روس کی نہیں" بلکہ روسی حکام کی اپنے امریکی ساتھیوں کے ساتھ ہونے والے رابطوں اور امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری کے گزشتہ روز کے بیانات کا بھی اس تجویز کے سامنے آنے میں اہم کردار ہے۔

ایران، چین اور عرب لیگ نے بھی روس کی اس تجویز کی حمایت کی ہے جس کا مقصد، روسی حکام کے بقول، شام پر ممکنہ امریکی حملے کو روکنا ہے۔

اوباما انتظامیہ نے روس کی اس تجویز پر محتاط ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔ پیر کی شب مختلف نشریاتی اداروں کو دیے جانے والے اپنے انٹرویوز میں صدر براک اوباما نے روسی تجویز کا محتاط انداز میں خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ شدام کو فوجی حملے سے دھمکائے بغیر روسی منصوبے پر عمل درآمد ممکن نہیں۔